کسی سیانے نے کہا ہے کہ کسی قوم کا مزاج دیکھنا ہو تو اس کا ٹریفک دیکھ لو۔ پاکستان میں بسنے والی قوموں کا مزاج کچھ بھی ہو کراچی میں آکر سب کے مزاج ایک ہو جاتے ہیں اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے سیاست اور سیاسی حکم نامے کو بھول جائیں تو کراچی واقعی مختلف قوموں کے بسنے والوں کا ایک گلدستہ ہے۔
کراچی کی سڑکو ں پر حکومت کا نہیں پاکستانی عوام کا بنایا ہوا قانون چلتا ہے۔ اس قانون کا پہلا اصول یہ ہے کہ جہاں جگہ ملے وہاں اپنی گاڑی گھسیڑ دو. بیک ویو مرر کا استعمال یہاں متروک ہو چکا ہے، حد تو یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی موٹر سائیکلوں میں بیک ویو مرر لگوانے ہی چھوڑ دئیے ہیں۔ نہ بیک ویو مرر ہوں گے نہ ٹینشن ہوگی۔ بڑی گاڑیوں کی یہ ٹینشن اچکے چوری کر کے دور کر دیتے ہیں۔
ٹریفک سگنل کا استعمال کراچی سے تقریباً ختم ہو گیا ہے ان کی جگہ اب انڈر پاسز اور بائی پاسز نے لے لی ہے۔ لیکن کراچی کے علاقے ڈیفنس میں جگہ جگہ پر ٹریفک سگنل لگے ہوئے ہیں کہتے ہیں ڈیفنس میں پڑھا لکھا مراعات یافتہ طبقہ رہتا ہے۔ وہاں سگنلز پر غریب آدمی اپنی موٹر سائیکل تو روک لیتا ہے لیکن 25 لاکھ کی گاڑی والے صاحب بہادر سگنلز پر رکنا اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ وہاں شاید ہی کوئی ایسا شخص موجود ہو جس نے ٹریفک پولیس کے سپاہی کو طمانچہ نہ مارا ہوا ہو۔ ڈیفنس والے اپنے بچوں کو بہادری کا پہلا سبق ہی یہ پڑھاتے ہیں کہ اگر کوئی سپاہی تمہاری گاڑی روکے تو چھوٹتے ہی اسکے منہ پر طمانچہ رسید کر دو۔
کراچی میں روزانہ سینکڑوں گاڑیاں سڑکوں پر آجاتی ہیں جب گاڑیاں نئی ہوں گی تو ان کے چلانے والوں کی بڑی تعداد بھی اناڑی ہوتی ہے۔ اناڑی ڈرائیور سڑک کے تیز ترین ٹریک میں گاڑی چلانے میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں اب اس کے پیچھے بھلے سے ٹریفک جام ہو رہا ہو وہ دنیا سے بے پرواہ بیس کی اسپیڈ سے خراماں خراماں اپنی گاڑی چلاتا رہے گا۔
یہی حال خواتین کا ہے۔ اگر آپ نہایت سکون سے اپنے ٹریفک میں گاڑی چلارہے ہیں۔ اور پیچھے سے کوئی گاڑی مار دے یا آگے والی گاڑی اچانک بریک لگا دے تو سمجھ لیجئے گا گاڑی کوئی خاتون چلا رہی ہیں۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا اچھی بھلی کشادہ چلتی ہوئی روڈ پر ٹریفک جام ہو جاتا ہے آپ سمجھتے ہیں کہ آگے شاید کوئی حادثہ ہو گیا ہے اور جب آپ کی گاڑی چیونٹی کی چال سے متاثرہ جگہ پہنچتی ہے تو پتہ چلتا ہے کوئی مزدا والا یا دو چار رکشے والے پسنجر کے انتظار میں بیچ روڈ میں دھرنا دئیے بیٹھے ہیں۔ آپ لاکھ ہارن بجائیں برا بھلا کہیں وہ اسی بے نیازی کی چادر اوڑھے دنیا و مافیا سے بے خبر دکھائی پڑتے ہیں۔
جب سے شہر میں فری کوریڈور بنے ہیں اور یوٹرن کا درمیانی فاصلہ کافی بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا رونگ سائیڈ سے آکر یوٹرن میں مڑنا بھی اب ایک باقاعدہ قانون کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اکثر ٹریفک پولیس آفیسر رانگ سائیڈ سے آنے والی گاڑیوں کے لئے بھی راستہ کلئیر کرواتے پائے جاتے ہیں۔
کراچی کے ٹریفک کا سب سے اہم اصول یہ ہے کہ آپ کو اپنی گاڑی کی حفاظت خود کرنی ہے۔ ذرا سا آپ کا دھیان چوکا اور کوئی رکشے والا، چن چی ولا یا سوزوکی پک اپ والا آپ کی گاڑی کو لائن مارتا ہوا چلا جائے گا۔
ٹریفک پولیس والے اب چالان کاٹنا بھول چکے ہیں۔ آپ نے ٹریفک سگنل توڑا ہو یا گاڑی چلاتے ہوئے موبائل کی کال اٹینڈ کی ہو۔ ٹریفک پولیس والے چالان کاٹ کر عوام کو تکلیف میں مبتلا نہیں کرتے۔ ہاتھ کے ہاتھ سو پچاس لے کر آپ کو فارغ کر دیتے ہیں۔
بہرحال یہ بات تو سچ ہے کہ ٹریفک پولیس والے پاکستان کے مظلوم ترین لوگ ہوتے ہیں سارا سارا دن کڑی دھوپ میں کھڑے ہو کر ٹریفک سنبھال کر عوام کو اذیت سے بچا رہے ہوتے ہیں اور ان کو ایسی عوامی خدمت کے صلے میں ملتا کیا ہے، ایک قلیل تنخواہ جس سے بمشکل وہ اپنے خاندان کو زندہ رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ پھر صاحب لوگوں کی گالیاں اور طمانچے تو بونس میں ملتے ہی رہتے ہیں۔