حال ہی میں اپنی مدت مکمل کر کے تحلیل ہونے والی قومی اسمبلی اور اس کے ارکان کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تذکرہ اس کالم میں ہوتا رہا ہے۔
تاہم جمعہ کو غیر سرکاری تنظیم 'فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک' نے ارکان قومی اسمبلی کی کارکردگی کے حوالے سے بعض دلچسپ حقائق بیان کیے جو جماعتوں اور ووٹرز، دونوں کے لیے، عام انتخابات میں مفید ثابت ہوسکتے ہیں۔
تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال کے دوران قومی اسمبلی نے ایک سو چونتیس مسودہ قانون (بِلوں) کی منظوری دی جن میں سے اکیاسی اب قانون بن چکے۔
گذشتہ اسمبلی کے مقابلے میں ابھی دو روز پہلے سبکدوش ہونے والی اسمبلی کی یہ عمدہ کاردگی تھی۔ ان سے پہلے کی اسمبلی نے صرف اکیاون مسودہ قوانین کی منظوری دی تھی۔
یہ بھی خوش کن پہلو ہے کہ ارکان کے پیش کردہ اکیاسی پرائیوٹ بِلوں کی بھی منظوری دی گئی، جن میں سے زیادہ تر، کافی اہم نوعیت کے اُن معاملات سے متعلق تھے، جو کافی عرصے سے قوانین سازی کے منتظر تھے۔
وقفہ سوالات کے دوران خواتین ارکانِ اسمبلی بھی بہت سرگرم رہیں۔ اسمبلی کے پانچ سالوں میں مجموعی طور قانون سازوں نے حکومت سے سولہ ہزار، چھپّن سوالات کیے، جن میں سے تقریباً نصف خواتین ارکان اسمبلی نے پوچھے تھے۔
تاہم اس کے ساتھ ساتھ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تیئس ارکان اسمبلی نے پانچ سال کے دوران اسمبلی کی کارروائی میں کوئی حصہ نہیں لیا۔
ان میں مرد و خواتین دونوں اراکینِ اسمبلی شامل ہیں، نیز ان کا تعلق حکومت اور اپوزیشن، دونوں طرف کی جماعتوں سے تھا۔
اب جب کہ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کے سامنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا مرحلہ ہے تو اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ارکان کی ایوان کے اندر کارکردگی کو بھی سامنے رکھیں۔
ایوان کی کارروائی میں ارکان کے حصہ نہ لینے سے عوام میں یہ تاثر ابھرتا ہے کہ سیاستدان عوامی مفاد میں قوانین سازی کے مراحل میں دلچسپی سے زیادہ، طاقت کے حصول اور اقتدار کا مزہ لوٹنے کے لیے اسمبلیوں تک پہنچتے ہیں۔
قومی اسمبلی کی پانچ سالہ زندگی میں ایوان کے اندر کورم پورا نہ ہونا بھی ہمیشہ ایک مسئلہ رہا، جس کا اسمبلی کے دونوں بازوؤں، حکومت اور اپوزیشن، کی طرف سے شاذ ہی نشاندہی کی گئی ہو۔
علاوہ ازیں، قوانین سازی پر بعض مرتبہ سیاسی جماعتوں اور ان کی پارلیمانی جماعتوں کے درمیان بھی تعطل نظر آیا۔ ضرورت ہے کہ ہموار قوانین سازی کے لیے سیاسی جماعتیں اس جانب توجہ دیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف سیاسی جماعتیں بلکہ وہ بھی جو منتخب ہونے کی امید رکھتے ہیں، اس طرح کے تمام مسائل کے حل کی طرف توجہ دیں۔