نقطہ نظر

بچوں پر تشدد

اسکولوں میں جسمانی سزائیں، قانون کی منظوری احسن قدم، ذہنی تشدد بھی مدِ نظر رہے۔

اگرچہ کچھ عرصے سے اسکولوں میں بچوں کو جسمانی طور پر دی جانے والی سزاؤں کی روک تھام کی جارہی ہے تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ قومی اسمبلی نے منگل کو نجی طور پر پیش کیے گئے  'پروہیبی ٹیشن آف کارپورل پنشمنٹ بِل دو ہزار دس' کی منظوری دے دی ہے۔

یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں بچوں کو دی جانے والی جسمانی سزاؤں کا سلسلہ عروج پر ہے۔ اس بل کا مقصد سرکاری و نجی تعلیمی اور بچوں کے اداروں میں، ان پر روا ظالمانہ سزاؤں کی روک تھام کرنا ہے۔

اگرچہ میڈیا میں اکثر اوقات بچوں پر اساتذہ یا والدین کے ایسے بہیمانہ تشدد کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں، جن میں بعض اوقات زخم ان کی زندگیوں کے لیے سنگین خطرات بن جاتے ہیں، تاہم تشدد کے نتیجے میں بچوں کو جس جسمانی تکلیف اور ذہنی کرب سے گزرنا پڑتا ہے، مقابلتاً بڑی تعداد میں ایسے واقعات کبھی سامنے نہیں آپاتے۔

لہٰذا ایسے میں اس بات کی بھی اشد ضرورت ہے کہ بچوں کی جسمانی سزاؤں کے ساتھ ساتھ ان کو دی جانے والی ذہنی اور نفسیاتی سزاؤں پر بھی اس قانون کا اطلاق ہوتا ہو۔

متعدد نوجوان طالب علموں کے لیے، بدقسمتی سے اسکولوں، مدارس اور گھروں میں کیا جانے والا تشدد زندگیوں کا حصہ ہے۔

پاکستان میں بچوں پر روا ظلم و تشدد کا یہ سلسلہ وسیع  پیمانے پر معاشرے کے لیے قابلِ قبول عمل ہے۔ اگرچہ چاروں صوبوں نے بچوں کی مار پیٹ روکنے کے لیے بعض انتظامی اقدامات کیے ہیں تاہم اسکولوں کی سطح پر ان کے نفاذ کا فقدان ہے۔

عمومی طور پر اس بات کا مشاہدہ کیا گیا ہے کہ جہاں ظالمانہ سزاؤں کی روک تھام کے لیے معاشرے کے رویوں میں تبدیلی کی ضرورت ہے، وہیں قوانین کا عدم نفاذ بھی ایک مرکزی مسئلہ ہے۔

پہلے قدم کے طور پر، اساتذہ کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ ان میں یہ حساسیت بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ غلطیوں پر بچوں کو روایتی طریقوں سے دی گئی ظالمانہ سزاؤں کے علاوہ بھی، ایسے انسانی طریقے ہیں کہ جن سے ان میں نظم و ضبط پیدا کیا جاسکتا ہے۔

علاوہ ازیں، منظور کردہ بِل میں، بچوں پر گھروں میں ہونے والے تشدد کا واضح طور پر حل موجود نہیں۔

شاید ایک بار جب اسکولوں میں ظالمانہ سزاؤں کا یہ مسئلہ بخوبی حل ہوجائے تو اس کے بعد گھروں پر کیے جانے والے جسمانی تشدد کے زیادہ حساس معاملے سے نمٹا جاسکے گا۔

معاشرے میں اس طرح کی بہیمانہ سزاؤں کے بڑھتے سلسلے کی روک تھام کے  لیےموثرطور پر آگے بڑھتے ہوئے، اس کا مکمل خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔

بہر حال، مقصد اس کے سوا کوئی اور نہیں کہ تششد کا یہ سلسلہ مکمل طور پر ختم ہو۔ بچے گھروں اور اسکولوں میں جسمانی سزاؤں سے متعارف ہورہے ہیں، انہیں بالغ ہونے پر، تشدد اور استحصال کے اس سلسلے کا حصہ بنانے سے بچانا ہوگا۔

ڈان اخبار