نقطہ نظر

انگلش میڈیم/اردو میڈیم

پنجاب کی مڈل کلاس ملک کا سب سے بڑا طبقہ ہے جس کے جنریشن گیپ نے ثقافتی تقسیم کی شکل اختیار کرلی ہے

میری ایک دوست نے جو اشرافیہ کے ایک اسکول میں پڑھاتی ہیں ایک مرتبہ اپنی ایک شاگرد کو میرے پاس بھیجا- اس نوجوان طالبہ کے مقالے کا موضوع "ہمارے علاقائی ہیرو" تھا اور اسے کچھ مدد درکار تھی- ایک نوجوان، پرجوش اور متجسس ذہن کی شخصیت سے ملاقات ہمیشہ میرے لئے ایک خوشگوار تجربہ ہوتی ہے اور یہ تو یقیناً اس سے بھی زیادہ بڑی بات تھی-

اس کا بھاری لہجہ اور جس تیزی سے وہ انگریزی بول رہی تھی میرے لئے اسکا ساتھ دینا اور اسکو سمجھنا مشکل ہورہا تھا- ایک فقرہ جو وہ بار بار دہرا رہی تھی اور جو میری سمجھ میں نہیں آرہاتھا "ڈولا باٹی"، پتہ نہیں کیا کہہ رہی ہے؟ میں پس و پیش میں تھا- لیکن جب اس نے بار بار یہ فقرہ دہرایا تو میں نے اس نئے لفظ کے حروف کا ایک ایک کر کے تجزیہ کرنا شروع کیا-

اوہ یہ تو نام ہے، ہماری تاریخ کا، پنجاب کے ایک ہیرو کا جسے ہم بھول چکے ہیں، اکبر اعظم کےعہد کا، سمجھ گیا! وہ دلا بھٹی کا نام لے رہی تھی، پنجاب کے عظیم باغی کا! اور اس کا تلفظ بالکل ویسا ہی تھا گویا کہ وہ نیو یارک سے آئی ہو اور میرے لئے جو پنجاب میں پلا بڑھا تھا اسکے تلفظ کو سمجھنا مشکل تھا.

میں نے کام مکمل کرنے میں اس لڑکی کی مدد کی لیکن اس سے کہیں زیادہ مدد تو اس لڑکی نے میری کی تھی، پنجابی سوسائٹی اور اس کی سیاست کو سمجھنے میں- اس پاکستانی لڑکی نے کسی باہر کے ملک میں تعلیم نہیں پائی تھی- اس نے یہ لہجہ اپنے ملک کے ایسےاسکول میں سیکھا تھا جہاں اشرافیہ کے بچے تعلیم پاتے ہیں-

جب ہماری دوستی ہو گئی تو مجھے پتا چلا کہ اس کے والد کسی مشہور اور مہنگے علاقے میں زیورات کا کاروبار کرتے ہیں- دراصل یہ لوگ سنار تھے اور پرانے لاہور میں رہتے تھے- بعد ازاں اس لڑکی کے والد نے اس نئے ابھرتے ہوئے شہر کے فیشن ایبل علاقے میں اپنا کاروبار منتقل کر دیا تھا تاکہ نئے مواقع سے فائدہ اٹھایا جا سکے اور اس وقت تک یہ لڑکی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی- اس لڑکی کے ددھیال نے پرانے "محلے" میں اپنی زندگی کے ابتدائی ایام گزارے تھے، یہ لوگ ابھی حیات ہیں اور اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں-

ایک چھت تلے یہ لوگ تین زبانیں بولتے ہیں اور یہاں تین ثقافتیں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں- اس لڑکی کے دادا دادی آپس میں اور دوسروں کے ساتھ لاہوری لہجہ میں پنجابی بولتے ہیں، وہ صرف یہی زبان جانتے ہیں-

البتّہ لڑکی کے والدین کو دو مواقع حاصل تھے- یا تو اردو بولیں یا پنجابی- وہ آپس میں تو پنجابی بولتے تھے لیکن بچوں کے ساتھ اردو میں بات کرتے تھے- اپنے دوستوں سے تو پنجابی میں بات کرتے تھے لیکن گاہکوں کے ساتھ اردو بولتے جس میں انگریزی کی بھی آمیزش ہوتی- وہ لاہوری پنجابی لہجے میں اردو بولتے تھے-

جہاں تک لڑکی کا تعلق ہے تو اس کے لئے انگریزی بولنا آسان تھا لیکن تھوڑی بہت کوشش سے اردو بول لیتی تھی اور اپنے دادا دادی کو خوش کرنے کیلئے اس نے پنجابی کے چند جملے بھی سیکھ لئے تھے- اس کے اردو کے لب و لہجہ میں غیر ملکی جھلک تھی اور پنجابی تو لگتا تھا کہ کسی اور ہی دنیا کی بول رہی ہے-

میں جلد ہی اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ تقسیم محض زبان ہی تک محدود نہیں تھی- بلکہ اور باتوں میں بھی اس کا اظہار ہوتا تھا- دیسی گھی کی خوشبو سونگھ کر اس کے دادا دادی کی آنکھیں چمک اٹھتیں- ماں باپ کو بھی یہ خوشبو اچھی لگتی تھی لیکن وہ اسے چھپا جاتے اور زیتون کے تیل کو ترجیح دیتے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جہاں تک لڑکی کا تعلق ہے تواس کے منہ سے"یخ" نکل جاتا اور الٹی کی ایکٹنگ کرنے لگتی-

میں نے کئی سبق سیکھے اور میں نے یہ محسوس کیا کہ اس تقسیم کا اظہار بہت سی شکلوں میں ہوتا ہے گو کہ وہ اتنے نقصان دہ یا تکلیف دہ نہیں ہیں-

لیکن میرے لئے اس سے زیادہ اہم ایک اور سوال تھا، آیا پنجابی متوسط طبقے کی اس تین طرفہ تقسیم کا اظہار اس کی سیاست میں بھی ہوتا ہے ؟

اور اگر ہوتا ہے تو کس طرح؟ میرا سیاست کا علم مجھے یہ بتاتا ہے کہ یہ تین طرفہ تقسیم پنجاب کے ایک معاشی طبقے کی تشکیل کرتی ہے جسکا سیاسی موقف ایک ہے اور یہ اپنی اندرونی تقسیم کو "رنگارنگی" کے پردے میں چھپا لیتی ہے- میری دوست نے اس سوال کا جواب پانے میں میری مدد نہیں کی- اسے سیاست سے قطعی دلچسپی نہیں تھی اور اس نے یہ سارے معاملات اپنے بزرگوں کے سپرد کر دئے تھے-

 جواب پانے کے معاملے میں میں تقریباً مایوس ہی ہوچکا تھا کہ میری ملاقات ایک اور نوجوان خاتون سے ہوئی جنکا لہجہ بھی اتنا ہی "بدیسی" تھا- مجھے فوراً ہی اس کے تانے بانے مل گئے اور مجھے ان سے پوچھنے کی ضرورت نہ پڑی کہ ان کے والد اور دادا دادی وغیرہ کونسی زبان بولتے ہیں بلکہ میں ایک نجومی کی طرح انھیں ساری باتیں بتاتا اور وہ سر ہلا کر میری بات سے اتفاق کرتیں بلکہ انہوں نے مجھے ایک کہانی بھی سنائی جس سے ان کی باتوں کی مزید تصدیق ہوتی تھی-

 یہ خاتون ایک اچھی داستان گو تھیں- انہوں نے مجھے یہ بتایا کہ انہوں نے یہ آرٹ ایک خاص مقصد کے تحت سیکھا تھا جو خود اپنے میں ایک کہانی ہے-

میری ان سے ملاقات ایک مقامی پرواز کے دوران ہوئی تھی جو تاخیر سے روانہ ہوئی تھی- میری نشست بہت ہی بری جگہ تھی، یعنی درمیانی لائین میں اور وہ بھی بالکل بیچ میں جہاں آپکو اپنے دونوں بازو سکیڑ کر بیٹھنا پڑتا ہے اور انتظار کرنا پڑتا ہے کہ آپ کا پڑوسی اپنے بیٹھنے کی پوزیشن تبدیل کرے اور سیٹ کے ہاتھ خالی ہوں- البتہ اچھا یہ ہوا کہ میری پڑوسی ایک ذہین، نوجوان خاتون تھیں- پیشہ کے لحاظ سے وہ ایک ٹیلی کام انجینئر تھیں، ان کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ان کے شوہر بینکر تھے-

یہ لوگ ابھی طے نہیں کر پائے تھے کہ وہ کس شہر میں مستقل رہائیش اختیار کرینگے، اپنے شہر میں یا میرے شہر میں. اسی لئے وہ ہر ہفتہ باری باری ایک دوسرے سے ملنے کیلئے سفر کرتے تھے- ان خاتون کو بار بار کے اس سفر سے الجھن ہوتی تھی اور وہ اس بخار کو اپنے پڑوسی کو کہانیاں سنا کر اتارتی تھیں- میں اخبار میں ایک مضمون پڑھ رہا تھا اور چاہتا تھا کہ اس کو ختم کرلوں لیکن کوئی چارہ نہ پاکرمیں نے ہتھیار ڈال دئے اور ان کی کہانی سننے لگا-

انہوں نے مجھے بات کرنے کی مہلت بھی نہ دی اور خود مسلسل مختلف موضوعات پر باتیں کرتی رہیں- اتفاق کی بات ہے کہ ہم سے چند قطار پیچھے ایک مشہور سیاستدان بیٹھے تھے جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ ن سے تھا- لوگ آتے جاتے انھیں سلام کرتے اور بعض تو جھک جھک کر ان سے دو چار باتیں بھی کر لیتے-

میں نے انکی باتوں کا رخ سیاست کی جانب پھیر دیا- پہلے تو انہوں نے سنی ان سنی کر دی اور کہنے لگیں کہ انھیں سیاست میں دلچسپی نہیں- لیکن میرے بار بار اکسانے پر سیاست پر بات کرنے کو تیار ہوگئیں-

انہوں نے باتوں کا سلسلہ شروع کیا، "اس کارٹون کو دیکھئے، اس نے کوٹ پینٹ کے سوٹ کے ساتھ جاگر پہنے ہوئے ہیں" ان کا اشارہ مسلم لیگ ن کے رہنما کی جانب تھا- "بھلا یہ جوکر کس طرح میری نمائندگی کر سکتا ہے؟" اب ان کا لہجہ ہتک آمیز تھا-

اس کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو بہت سے لطیفے سنائے اورہنستے رہے- اگرچہ میں اپنے نوٹ لینا نہیں بھولا- ہم نے "سری پائے" اور دیگر عجب و غریب کھانوں کے شوق پر نواز شریف کا مذاق اڑایا-

ہم نے چکن فجیتا پیزا کی بھی بات کی جس پر خاتون کے منہ میں پانی بھر آیا جسے سنکر شائد وہ لوگ اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے- انہوں نے جاٹ لہجے میں راجہ ریاض کی اردو کی نقل اتاری اور خاصی دیر تک ہم مختلف قائدین کے لہجوں کا مذاق اڑاتے رہے-

جہانگیر بدر کے " ر" پر زور دیکر کہنے پر بھی کافی دیر تک باتیں ہوئیں- پرانے لاہوریوں کا لہجہ توعجیب و غریب ہے یہ شخص تو اپنا نام بھی صحیح طورپرنہیں کہہ سکتا "جہانگیر بادر"!

جب انکا سیاسی لطیفوں کا ذخیرہ تقریبا ختم ہونے والا تھا جو انہوں نے یو ٹیوب اور فیس بک پر دیکھے تھے تو میں نے ان کی چٹکی لی اور کہا کہ سیاستدانوں کے ساتھ ان کے یہ سارے اختلافات ثقافتی نوعیت کے ہیں سیاسی نہیں تو ان کا لہجہ بدل گیا اورانہوں نے ایک نئی کہانی شروع کردی جس میں وہ شائد اتنی ماہر نہ تھیں: سب کے سب رشوت خور، چور، لٹیرے وغیرہ وغیرہ (سوائے ایک کے)-

اس سے پہلے کہ ہماری جدائی ناخوشگوار موڈ میں ہوتی، کیونکہ میں ڈررہا تھا کہ اب اینٹی کلائمکس آ پہنچا ہے تو اعلان ہوا کہ وہ پرواز جو علامہ اقبال سے روانہ ہوئی تھی قائد اعظم ایر پورٹ پر لینڈ کر چکی ہے-

میرا تجسس کہاں پہنچا تھا؟ مجھے ڈر ہے کہ شائد ہی میں یقین کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچ پاؤں- اگلے انتخابات تک میرا جہاز ٹیکسی کرتا رہیگا- پنجاب کا متوسط طبقہ ملک کا سب سے بڑا طبقہ ہے- اس کے اندر کے جنریشن گیپ نے ثقافتی تقسیم کی شکل اختیار کر لی ہے- اور اس میں سیاسی شگاف پڑ چکا ہے- اس شگاف میں پاکستان تحریک انصاف کا پودا جڑ پکڑ رہا ہے-

عمران خان کی شخصیت ایسی ہے کہ نوجوان نسل ان سے جڑنے پر شرم محسوس نہیں کرتی، اسکا خیال ہے کہ وہ اس ثقافتی تقسیم میں اس کے ساتھ ہیں-

سیاست کے بائیں-دائیں پیمانے پر بڑے خاندانوں کا رجحان ایک ہی جانب ہوگا کیونکہ تمام بڑے مسائل پرانکا موقف یکساں ہے- لیکن بات ڈنر کی ہو تو ان کا مینو مختلف ہے- ابھی تو بازار میں کوئی ایسی "ڈیل" بھی موجود نہیں جو سارے خاندان کو خوش کردے- تو کیا سینٹرل پنجاب میں ہونے والے انتخابات دیسی گھی کے تڑکے والی نہاری اور بیف-جلاپینو برگر کے درمیان ہونگے؟ آپ چاہے کسی کا ساتھ دیں یقین کیجئے کہ دعوت پر تکلف ہوگی-


ترجمہ:  سیدہ صالحہ

طاہر مہدی

لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔