نقطہ نظر

پالیسی اور عوام

لاہور میٹرو بس سے سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں پبلک پالیسی پر کھلی بحث کیوں نہیں کی جاتی۔

پنجاب حکومت کا کہنا ہے کہ تقریبا تیس ارب روپے کی لاگت سے میٹرو بس منصوبہ تکمیل کو پہنچا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب منصوبے پر لاگت کے تمام تر حسابات مکمل ہوجائیں گے، تب حتمی اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک بات ہے پنجاب کے بجٹ کی تو اس منصوبے کے لیے صرف گیارہ ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔

مختص رقم کے مقابلے میں منصوبے کی لاگت اُنیس ارب روپے بڑھنے کی وجہ اس تحریر کی بنیاد نہیں۔ میرے لیے خطرے کی گھنٹی یہ ہے کہ اس ہم پبلک پالیسی کے معاملے پر میں نے کوئی معیاری بحث نہیں سنی۔

سب سے پہلے اس معاملے کو کچھ سیاق و سباق کے تناظر میں دیکھتے ہیں:

میٹرو بس منصوبہ دراصل لائٹ ریل ماس ٹرانزٹ سسٹم کے فیز ون کا سب سے نچلا حصہ بنا ہے۔ اس منصوبے کے کئی حصے تھے۔ جنہیں بلیو، پرپل اور اورنج رنگوں سے دستاویز پر واضح کیا گیا ہے۔

دراصل یہ اس حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کے تحت منصوبہ بنا کہ دہلی میٹرو کی طرز پر لاہور شہر کے لیے بھی ماس ٹرانزٹ سسٹم فراہم کیا جائے۔

سن دو ہزار آٹھ میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک لائٹ ریل ماس ٹرانزٹ سسٹم کے کے لیے تکنیکی اعانتی قرض دینے پر رضامند ہوگیا تھا۔ بینک نے معاہدہ کیا کہ وہ منصوبے پر سرمایہ کاری یا قرض کی تلاش میں پنجاب حکومت کے ساتھ کنسورشیم بھی بنائے گا۔

چند ماہ کے بعد، جون دو ہزار آٹھ میں ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے سی ای او نے بورڈ کو آگاہ کیا کہ منصوبے پر سرمایہ کاری کے لیے کوئی سرمایہ کار بنک آمادہ نظر نہیں آتا۔

لائٹ ریل ماس ٹرانزٹ سسٹم کے بارے میں سرمایہ کاری بنکاروں کے دو بڑے خدشات تھے:

پہلا تو یہ کہ منصوبے کی دستاویز مبہم اور کمزور تھی۔ انہیں شبہ تھا کہ آیا پنجاب حکومت ٹرانزٹ کوریڈور کے لیے بروقت اور با آسانی زمین حاصل کر پائے گی۔

دوسرا شک یہ تھا کہ اگر انہوں نے پنجاب حکومت کو کریڈٹ ریٹنگ دی تو کیا وہ معتبر ٹریفک گارنٹی فراہم کرنے کے قابل ہوپائی گی۔

سرمایہ کاروں کے خدشے ختم کیے بغیر حکومت بدل گئی۔ مسلم لیگ نون کی حکومت نے اقتدار سنبھالا لیکن وہ لائٹ ریل منصوبے پر پُرجوش نہیں تھے، شایدوہ اس لیے بھی بدگماں ہوں گے کہ یہ پرویز الہٰٰی کا منصوبہ تھا۔

دوسری طرف پنجاب بیوروکریسی نے بھی منصوبے کو فائلوں کے ڈھیر تلے دبادیا، یوں وہ اجلاسوں میں بھی زیرِ بحث نہ آسکا۔

دوسری طرف ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جو پیشکش تھی، اس پر عمل کی مدت بھی گزر چکی تھی، حالانکہ اس کے بعد بھی چین اور ملائشیا پر مشتمل ایک کنسورشیم نے منصوبے میں اپنی دلچسپی ظاہر کی تھی۔

اگرچہ وفاق سے پاکستان مسلم لیگ نون کی ورکنگ ریلیشن شپ کشیدہ رہی، تاہم پنجاب بیورو کریسی کے سینئر افسران منصوبے کے لیے رقم کی فراہمی پر ضمانتی معاملات طے کرنے کی کوشش کرسکتے تھے مگر وہ 'تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو' کے مصداق صورتِ حال کو دیکھتے رہے۔

اس مرحلے پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت کو بھی یہ احساس ہوگیا کہ مونو ریل کا معاملہ کھنچتا ہی چلا جارہا ہے۔ دو ہزار تیرہ انتخابات کا سال ہے اور حکومت کی مدت کے خاتمے سے قبل منصوبے کا افتتاح ہوجانا چاہیے۔

پنجاب حکومت نے سخت ترین محنت کے بجائے ذرا سستی سے کام کرنے کا آپشن استعمال کیا۔ انہوں نے بسوں کے سفر کے لیے کوریڈور کے طور پرموجودہ سڑکوں کو ہی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس کا بدترین پہلو یہ تھا کہ منصوبے کی باقاعدہ فزیبلٹی رپورٹ تیار کرائے بغیر پنجاب حکومت نے منصوبے کے لیے نجی شعبےسے، سرمایہ کاروں کی پیشکشں طلب کرنے کا اشتہار جاری کردیا۔

وہ بعض نجی سرمایہ کار جنہوں نے اس پیکش کا جواب دیا اور کاغذی کارروائی کی حد تک گئے، انہوں نے منصوبے سے متعلق ناقص اطلاعات کی شکایات کیں۔

مثال کے طور پر، کم از کم آمدنی کی حد کی ضمانت کا کوئی ذکر نہیں تھا، نیز کئی بنیادی نوعیت کے کام بھی مفقود تھے، جیسے کہ 'حساسیت کا تجزیہ' جو کہ اس نوعیت کے منصوبوں کا ایک اہم اوزار ہوتا ہے۔

منصوبے سے متعلق معلومات ناکافی اور مبہم تھیں۔ اس میں ایسی باتیں بھی شامل نہیں تھیں کہ جن کی بنیاد پر سرمایہ کار منصوبے میں سرمایہ کاری کا فیصلہ کرتے ہیں۔

آخر اس ضمن میں افسر شاہی کے مزید دو سال اور گذر گئے، آخر منصوبے کا آخری سرمایہ کار بھی دور چلا گیا۔

جب آپ یوں بیچ منجدھار میں تنہا رہ جائیں تو پھر کیا کریں گے؟ پیچھے جاؤ، اعداد و شمار، دستاویزات درست کرو اور اُس کے بعد منصوبے کے لیے بولی دہندگان کو پیشکش دو۔

لیکن اس کے بجائے پنجاب حکومت نے ایک بار پھر شارٹ کٹ استعمال کیا۔ انہوں نے سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے کے لیے ضروری اقدامات کو جھنجھٹ سمجھا اور اس میں پڑنے کے بجائے اپنے پلّے سے رقم منصوبے میں جھونک دی۔

یوں رقم خرچ کر کے منصوبہ مکمل کرنا سہل سہی مگر حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے صوبے کے کُل ترقیاتی بجٹ، تریسٹھ ارب روپے کا لگ بھگ نصف، صرف ایک شہر کے ایک کوریڈور پر خرچ کرڈالا۔ یہی وہ نقطہ ہے جو پبلک پالیسی پر سوال اٹھاتا ہے اور ہمیں اس جانب لاتا ہے مگر ہم اس پر بات ہی نہیں کررہے۔

اسٹیٹ بنک نے تخمینہ لگایا ہے کہ پاکستان میں ترقیاتی ڈھانچے سے متعلق سیکڑوں منصوبوں کو تکمیل کے لیے ڈیڑھ سو ارب روپے کے فنڈز درکار ہیں۔ اگر نہایت محتاط طور پر تخمینہ لگائیں تو ان میں سے ایک تہائی ترقیاتی منصوبے پنجاب کے ہیں۔

پنجاب میں انفرا اسٹرکچر یا ترقیاتی ڈھانچوں کے لیے سالانہ مختص بجٹ چھ سو تیس ملین روپے سے کچھ کم ہے۔ اب اگر اس تناظر میں صوبے کے ان منصوبوں کی تکمیل کا گوشوارہ بنائیں تو زیرِ االتوا منصوبوں کا بیک لاگ ختم کرنے کے لیے اُناسی سال درکار ہوں گے۔

حکومت کو ان منصوبوں پر پیسا لگانا چاہیے یا اسے یہ کردار اہل اور نجی شعبے کی قیادت کے حوالے کردینا چاہیے؟

کیا ملک میں پرائیوٹ پبلک پارٹنر شپ کے حوالے سے کوئی خاکہ یا قانون موجود ہیں؟ ترقیاتی ڈھانچے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کب شروع ہوگی اور اس کے مقاصد کیا ہوں گے؟

حکومت کو بسیں چلانے کے کاروبار میں ہونا چاہیے؟ ہم نے اور ہماری حکومتوں نے گذشتہ برسوں کے دوران ملک میں سرکاری سطح پر بسیں چلانے کے تجربات سے کیا سیکھا ہے؟

کیا حکومت سرکاری سطح پر ریلوے، پی آئی اے اور نیشنل شپنگ کارپوریشن کو احسن انداز سے چلانے کی ذمہ داریاں نبھا سکی ہے؟

اس وقت ایسا کیا ہے جو اُن تجربات سے مختلف ہے؟ آج سے ایک سال، تین سال اور دس سال کے بعد اس ضمن میں ان کی منصوبہ بندی کیا ہے؟

اگر حکومت بلڈ اینڈ ٹرانسفر یا 'تعمیر کرو اور حوالے کرو' ماڈل کے تحت منصوبوں میں سرمایہ کاروں کو متوجہ کرنے میں ناکام رہی تو وہ پرائیویٹائزیشن یا نجکاری پر انہیں کیسے متوجہ کرسکے گی؟ کیا یہ ایسا منصوبہ ہے کہ جس سے مستقبل میں قومی خزانے کو دولت حاصل ہوسکے گی؟

نوّے کی دہائی میں ایسی آوازیں تھیں جو شریف صاحبان سے کہہ رہی تھیں کہ ایم ٹو موٹر وے میں ڈالے جانے والے ایک ارب ڈالر بجائے اس کے، ریلوے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے پرلگادیے جائیں۔

سن اُنیّسو ستانوے میں ڈالر بیس روپے کا تھا اور ملکی معیشت کے تناظر میں، آج کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے، اُس وقت کی گئی سرمایہ کاری لوٹ سکتی تھی تو جو فیصلہ کیا گیا وہ درست تھا؟

شاید وارن بفے بیسویں صدی کا سب سے کامیاب سرمایہ کار ہوسکتا ہے۔ سن اُنیّسو نوّے میں اُس سے پوچھا گیا کہ وہ کیا سمجھتا ہے کہ پاکستان کو کس شعبے میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔

شاید اُس نے کہا تھا کہ پاکستان کی کسی کیمیکل صنعت کے بجائے ہائیڈرو کریکر منصوبے میں پیسا لگانا بہتر ہوسکتا ہے، کیونکہ یہ عالمی سطح پر مقابلے کے رجحان اور ترقی کو فروغ دیتا ہے؟

لیکن آج ان کا انتخاب پاکستان کی عوام ہے۔ ہم ان اقدامات کو بہتر بناسکتے ہیں اگر درست اطلاعات کی بنیاد پر ان کا معیاری تجزیہ ہو اور جہاں تک پبلک پالیسی کی بات ہے تو اس پر درست معلومات کی روشنی میں وسیع بحث کی جائے۔

کم از کم یہ وہ چیزیں ہیں جو میں تلاش کرسکا۔ یہ آج کے عمل میں موجود نظر نہیں آتی ہیں۔


مضمون نگار عالمی تجارتی حکمتِ عملی کے ماہر اور بزنس مین ہیں۔ moazzamhusain@yahoo.com.au

ترجمہ: مختار آزاد

معظم حسین
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔