اعلیٰ نشہ ، مہنگا خمار

پاکستان کے امیر اور مراعات یافتہ طبقے میں جدید ترین نشہ آور اشیا کے استعمال پر ایک اہم تحریر۔

یہ گزشتہ نومبر کی بات ہے، کراچی میں ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی ( ڈی ایچ اے) میں نشہ آور کرسٹل (میتھ) کی جزووقتی تجربہ گاہ  دھماکے سے پھٹ پڑی اور اس سے علاقے میں خوف پھیل گیا کیونکہ نو محرم کی وجہ سے سیکیورٹی ہائی الرٹ تھی۔ اس کے علاوہ عدالتوں ایفیڈرین کوٹہ کی غیرقانونی منتقلی کا ایک ہائی پروفائل کیس پہلے ہی چل رہا ہے جس میں مبینہ طورپراعلیٰ شخصیات ملوث ہیں۔

اسی طرح پاکستان میں منشیات کا دائرہ مزید پھیلتا جارہا ہے کیونکہ سڑکوں پر بھٹکنے والے منشیات کے عادی نہ صرف سستی چرس اورہیروئن تلاش کررہے ہیں بلکہ اشرافیہ کی پارٹیوں اور نوجوانوں میں تفریح کے طور پر میتھ اور کوکین وغیرہ کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں منشیات کے استعمال پر ڈان کا خصوصی ضمیمہ۔

ہفتے کی رات تھی اور وہ کیماڑی کے ساحل پر تیل سے آلودہ پانی میں سُلی کی کشتی ' آئیٹم گرل' کی جانب جارہے تھی۔ ثمرہ نے اپنے منگیتر کا ہاتھ تھام کراچک کر کشتی میں قدم رکھا۔

کم وقت میں اندھا دھند چڑھانا اس کی عادت نہ تھی لیکن پارٹی سے قبل اسے جونز کا ساتھ تو دینا ہی تھا۔ وہ غنودگی میں آکر اپنے خاص ہیئر اسٹائلسٹ سے بنائے گئے بال، نیویارک سے خریدے گئے ڈولچے اینڈ گبانا کے ڈریس، سیلواتورے فیریگاموکے پرس اور نائن ویسٹ سینڈلز خراب کرنے کےموڈ میں نہیں تھی۔

اس کے کانوں میں آویزاں سواروسکی کے ایئر رنگز پارٹی کی روشنیوں سے چمک رہے تھے۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرائی اور آنکھیں جھپکائیں۔ وہ مکمل نشے میں تھا اور وہ سمجھی کہ اس وقت گیارہ بجے ہیں ، اس لڑکے کی آنکھیں ہلکی لگ رہی تھیں اور اس کی پتلیاں پھیلی ہوئی تھیں۔

وہ پوری شام کش پہ کش لگاتی رہی۔ دوسری جانب وہ بھی اپنے ساتھ لانے والا نیا سفید پوڈر قدرے تیزی سے خرچ کررہا تھا۔ سُلی کو اس موقع پر ٹھہرجانا چاہئے تھا لیکن وہ ایسا کیوں کرے گا کیونکہ وہ تو پارٹیوں کا دیوانہ تھا۔ اسے کالج کے دوست ' کیمیکل ڈیڈی' کہتے تھے ۔ اس کی سالگرہ کی پارٹی موسم کی سب سے اہم تقریب ہوگئی تھی ۔ ٹیکنو میوزک فضا میں پھیلاہوا تھا اور ہوا میں نمک، سمندر،کیچڑ، مہنگے پرفیومز حشیش کی بو اور خوشبو باہم مل گئی تھیں۔

اس نے سُلی پر نظر دوڑائی ، وہ درازقد، بہترین کاٹھی اور مضبوط عضلات کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین لباس میں تھا۔ اس کا لباس اس کی امارت اور معاشرے میں اہمیت کو ظاہر کررہا تھا۔ اس کی گفتگوکا انداز اور لہجہ اس کی بہترین اسکول کی تعلیم اور ملازمت کا پتہ دے رہا تھا۔ اور وہ اپنی ہی پارٹی میں توجہ کا مرکز بناہوا تھا۔

یہاں آنے سے قبل اس نے اپنے ڈیلر سے پندرہ گرام کوکین خریدی تھی۔ اس نے کچھ منافع کمانے کیلئے بارہ گرام کوکیین فروخت کردی تھی۔ اب وہ باقی پوڈر استعمال کرنا چاہتا تھا اور اس نے کم بھیڑ والی جگہ کا انتخاب کیا۔

 اس نے ایک جگہ منتخب کی ، اپنا بٹوا نکالا جس میں ہمیشہ نصف گرام پوڈر موجود رہتاتھا اور ایک نوٹ اور ایکا کارڈ تاکہ وہ نشے کا سامان بناسکے۔

سُلی بمشکل دس سال کا ہوگا جب اس نے پہلا سگریٹ سلگایا ہوگا۔ ' میرے والدین تمباکو نوشی کرتے تھے اور ان سے چراکر پینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اس سے مجھےاسکول کے دوستوں میں بہت اہمیت ملی۔' نوعمری میں اس نے بیئر پھر شراب نوشی شروع کی۔ اسی لئے تیس کے پیٹے میں اب اس کا جگر بہت متاثر ہوچکا تھا اوراس نے شراب کو خیرباد کہدیا تھا۔

بات کرتے ہوئے اس نے بار بار ٹشو سے اپنا ناک پونچھا اور اس پر خون کے دھبوں نے سب راز کھول دیے۔ اگلے دن اسے ناک اور حلق کے ڈاکٹر سے ملنا تھا تاکہ وقت بے وقت ناک سے خون بہنے کا علاج کراسکے جس سے ایک وقت میں ایک نتھنے سے خون بہتا۔ وہ چاہتا تھا کہ بحالی کےدوران وہ ناک کے زریعے نشہ بھی کرتا رہے۔

ایک اور لڑکا بی ایم ڈبلیو سے اُترا جس کے ساتھ چینل کا بیش قیمت بیگ لہراتی اس کی گرل فرینڈ تھی اور وہ  دونوں ایک کونے میں بیٹھ کر کوکین سے شغل کرنے لگے۔

 سُلی کے تمام دوستوں کو کوکین کا چسکا نہیں تھا بلکہ ہر ایک کیلئے اور لوازمات بھی تھے۔ بٹیر سے لیکر سی فوڈ کی لذتیں موجود تھیں، لاہور سے بلائی گئی بیس لڑکیاں تھیں، خوبصورت ہیجڑے بھی تھے جو شراب پیش کررہے تھے۔ ڈیزائنر، ماڈلز، بزنس مین اور دوسرے وی آئی پیز کی گہما گہمی تھی۔

یہ پارٹی ایسی تھی جس میں آپ اپنا نشہ خود لے کر آتے ہیں۔ لیکن پینے، دھواں اڑانے، سونگھنے اور اندرکمروں میں تفریح  کیلئے بھی بہت کچھ موجود تھا۔

حشیش کو ہمیشہ سے ہی اہمیت حاصل رہی ہے لیکن کوکین اور ایکسٹیسی اب نئے اسٹیٹس سمبل میں شامل ہوگئی ہیں۔ بھیک مانگیں، چرائیں، ادھار لیں یا قتل کرکے ہتھیائیں، آپ کے پاس نشہ آور گولی یا پوڈر ہونا چاہئے۔

ثمرہ قدرت کے قریب محسوس کرتے ہوئے سمندری ہوا کے ساتھ خود کو اُڑتا ہوا محسوس کررہی تھی۔ نیزہ قدرے حساس ہوگئ تھی اس نے اپنے ہاتھوں پر سرنجوں اور ربڑ کے نشانات کو شیفون کی آستینوں سے چھپایا ہوا تھا۔ زارا خود کو ہلکا اور آزاد محسوس کررہی تھی۔

شانزے کو نرم و ملائم پروں سے پیار ہے اور اسی لئے اس کے اکثر ہینڈ بیگز پروں سے بنے  ہوتے ہیں۔ عمیر متوجہ ہورہا تھا۔ عثمان کو یوں محسوس ہورہا تھا کہ جیسے کوئی عورت اس پر رینگ رہی ہو۔

شیراز کو گمان تھا کہ پوری کشتی پر صرف وہی حقیقی مرد ہے کیونکہ وہ ڈی جے کے لگائے بالی وڈ کےگانے پر خواتین کے اردگرد منڈلا رہا تھا تاکہ اچانک اپنے بدن کی نمائش کرسکے وہاں موجود خواتین کو لبھا سکے۔

 مغمور، غنودگی میں مبتلا، اعتراف کرتے ہوئے، جھوٹ بولتے ، جھومتے ، ناچتے اور گرتے ہوئے کچھ چھوئے جانے کے خواہشمند تھے۔ بعض خود کو ہنسنے سے روک نہیں پارہے تھے، کوئی رونا چاہ رہا تھا اور دوسرا سمندری مخلوق سے خوفزدہ تھا۔ موسیقی، نشے اور روشنی میں محبت، نفرت، رازوں، بوسوں،سرگوشیوں، تھپڑوں،  قہقہوں ، آنسوؤں، مناسب اور نامناسب پروپوزلز، کاروباری معاہدوں اور ڈیٹس، کا تبادلہ ہورہا تھا۔

جلانے کیلئے نشہ اور اُڑانے کے لئے روپیہ سبھی کچھ موجود تھا اور یہ سب صبح تک چلتا رہا۔ یہ وقت کسی کیلئے اختتام کا تھا تو دوسرے کیلئے شروعات کا ۔ محفل سے جاتے ہوئے کچھ خوش تھے، کچھ اداس، کچھ مطمیئن، کچھ مزید چاہتے تھے، کچھ دھوکہ کھائے، کچھ فتح مند تھے۔ لیکن سب کو اس سے محبت تھی۔

احتیاط کے طور پر تمام کرداروں کے نام بدل دیئے گئے ہیں۔

لکھاری: فوزیہ ناصر احمد اور شگفتہ ناز