صدر کی منظوری سے فہرستِ علامات میں ستائیس نئے انتخابی نشانات شامل کرلیے گئے ہیں۔
فہرست میں نشانات کی بھرمار ہے۔ ایک سو نوّے نشانات میں سے کچھ تو ایسے ہیں کہ جنہیں الاٹ کرا کر اس کے ساتھ خود کو پیش کرنا کوئی پسند نہ کرے۔
پرانے انتخابی نشانات میں سے بعض اب بھی معمہ کی صورت موجود ہیں جیسا کہ یہ ہمیشہ سے بنے رہے ہیں۔ اکثر یہ نشانات باسی کڑھی میں اُبال کی طرح مضحکہ خیز بحث کے موضوعات بھی بنے ہیں۔
فہرست میں شامل بعض انتخابی نشانات کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ان کے ساتھ خود کو منسلک کر کے، قوم کے سامنے پیش کرنے کی ہمت کون کرے گا۔ وہ بھی ایسے میں کہ جب بطور ووٹر نشان پر عوام کی مہرِ تصدیق سے خود کو سیاستدان ثابت کرنا مقصود ہو۔
صدارتی اضافہ ایسی خواہشِ پدرانہ کو دھوکا دینے کی مانند ہوسکتا ہے جو زیادہ پُرامن اور قدامت کی حامل ثقافتی علامتوں کی خواہاں ہے۔
حقہ اور چاقو فہرست میں دوبارہ شامل کرلیے گئے۔ یقین ہے کہ یہ دونوں نشانات کم زخمی ماضی کی یادیں دوبارہ واپس لے آئیں گے۔
اسی طرح کچھ ایسے بھی نشانات ہیں جو ختم کیے جاسکتے ہیں، ان میں سے بعض جذباتی صدموں کے حامل ہیں جیسا کہ بلب اور لالٹین۔
اسی طرح ایک متبادل نشان سورج ہے جو مُلک کے افق پر انتخابات کی صورت طلوع ہونے جارہا ہے۔
سورج اُن سب کے لیے ایک درست اور محفوظ انتخابی نشان ہوسکتا ہے جو ملک میں بجلی کے بحران پر قابو پا کر مسئلہ حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔
مسلم لیگ نون کے مطالبے پر انتخابی نشانات کے تھیلے سے بلی کو نکال باہر پھینک دیا گیا۔
ان کا مسئلہ تھا کہ بلی ان کے انتخابی نشان شیر سے مماثل تھی۔ اکثر ان کے ووٹرز ٹھپہ لگاتے وقت خالہ بلی اور شیر بھانجے میں شناخت نہ کر پاتے، یوں خالہ بھانجے کی شباہت میں مماثلت کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑتا تھا۔
اس نشان سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ نون کو درخت کی سب سے اونچی شاخ پر چڑھنے کی ضرورت ہے، بس کوئی ان کے شیر کو درخت پر چڑھنا سکھادے۔
خوش قسمتی سے سیاستدانوں کےموافق قدرتی مخلوق کو بھی فہرست میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ خوش آئند علامت ہے کہ اس بار مگرمچھ اور کچھوے کو بھی بالآخران کا جائز مقام مل ہی گیا۔
طویل عرصہ ہونے کو آیا مگر وہ بدستور عوام کے دکھوں پر حقیقی ٹسوے بہارہا ہے اور لمبی ریس کے وہ جب خوابِ خرگوش خرگوش میں پڑے ہیں، یہ رینگتے رینگتے منزل کی طرف بڑھا جارہا ہے۔