'فارمی چوزے'
ان کے فون رکھنے کے بعد میں نے پاکستان میں آج کل کے بعض ٹی وی اینکروں کے بارے سوچنا شروع کر دیا. کیا وہ دور تھا جب ہم اپنے گاؤں میں مارک ٹلی اور ریاض بٹالوی جیسے صحافیوں کے کام کو داد دیتے تھے۔
جب گزشتہ چند سالوں کے دوران غربت اور افلاس نے کئی مزاحیہ اداکار اس دنیا سے اٹھا لیئے تو ہم نے بعض ٹی وی اینکروں کے "کٹاکٹ نما " شو دیکھ کر مزاحیہ ڈراموں کی کمی کو پورا کرنے کی کوششیں شروع کر دیں- ان چینلوں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان میں سے بعض اینکرز تو ایسے جلدی جلدی نمودار ہو ئے ہیں کہ جیسے "فارمی چوزہ " جلدی جلدی تیار ہوتا ہے۔
بد قسمتی سے پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے ہفتے کے ساتوں دن شہ سرخیوں میں رہتا ہے اور رہی سہی کسر ان چند نام نہاد اینکرز نے نکال دی ہے جوخود کو زبردستی صحافی بھی کہلواتے ہیں اور "سپا نسرڈ بریانی" کھا کر ہر رات پاکستانی قوم کو امریکا سمیت دنیا کے مستقبل کا بھاشن دیتے نہیں تھکتے۔
اس کے ساتھ ساتھ بعض ٹی وی مالکان بھی بریکنگ نیوز اور ریٹنگ کی دوڑ میں یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کا کون سا کیمرہ مین کب اور کہاں غربت اور افلاس یا دہشت گردی کا نشانہ بنا تھا- کئی ٹی وی کارکن تو تنخواہ نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی بھی کر چکے ہیں۔
دنیا ٹی وی کی حالیہ ویڈیو نے جو کہرام پاکستان میں برپا کیا ہے، اس نے بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانیوں کو بھی شرمندہ کروا دیا ہے - مجھے یاد ہے دو سال قبل میرے ایک دوست نے دنیا ٹی وی پر ہی سیالکوٹ میں دو بھائیوں کی بھرے مجمعے میں قتل کی ویڈیو بنائی تو اس وقت بھی " دنیا ٹی وی کی انتظامیہ اور مالکان نے صرف ریٹنگ کی پروا کی اور میرا کمرہ مین دوست ملک چھوڑنے پر مجبور ہو گیا"۔
اس حالیہ ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد مجھے اب اس کمرہ مین کی بھی فکرکھا رہی ہے - نہ صرف مجھے بلکہ مغربی ممالک میں صحافتی تنظیموں نے اس "تاریخی ویڈیو " کے یوٹیوب پر آنے کے بعد پاکستان کے " نام نہاد اینکروں" کی تربیت کے حوالے سے ان کے مالکان کو ہدایات دینے کے بارے میں غور کرنا شروع کر دیا ہے۔
کہتے ہیں کہ ملک ریاض کام نکلوانے کے لیئے پیسے کا بے دریغ استمال کرتے ہیں. اس پر تبصرہ کرتے ہوئے مجھے وینکوور کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کی یہ کی بات ہمیشہ یاد رہے گی کہ "اگر آج علامہ اقبال زندہ ہوتے تو ریاض ملک، جن کو پاکستان کے بعض اینکر "ریاض ٹھیکیدار" بھی پکارتے ہیں، وہ علامہ اقبال کو بھی پیسے کے زور پر سیالکوٹ کا نام شہر اقبال کے بجاۓ "شہر ریاض" کرنے کی ناکام کوشش ضرور کرتے (یاد رہے کہ ریاض ملک سیالکوٹ میں پیدا ہوئے)۔
اس حالیہ ویڈیو کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ملک ریاض اور دنیا ٹی وی کے دونوں اینکر بہت جلدی میں تھے - سیانے کہتے ہیں کہ "جلدی کا کام خرابی کا"۔
خیر اب بھی موقع ہے پاکستان کے غریب عوام کا مال لوٹنے والوں اور نام نہاد ٹی وی مالکان کے لیے کہ وہ اپنا قبلہ درست کر لیں ورنہ "غریب کی ہائے" اور اب " کیمرے کی آنکھ " جس کو لگ جائے اس کو اللّہ کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا۔جاتے جاتے ایک واقعہ بتاتا چلوں - گزشتہ برس میں چھٹیوں میں پاکستان گیا تو ہمارے گاؤں کے بزرگ جنھیں "لالہ ٹھیکیدار" کہتے ہیں دو لاکھ روپے لے کر میرے پاس آۓ ، میں سمجھا شاید اپنے بیٹے کو بیرون ملک بھجوانے کے لئے کسی ایجنٹ کی تلاش میں ہیں تو حقے کا کش لگا کر کہنے لگے "ہماری تھوڑی سی زمین ہے، بیچ کر دو لاکھ ہی ملے ہیں، کینیڈا جانے سے پہلے کچھ دے دلا کر میرے میٹرک فیل بیٹے کو کسی ٹی وی چینل میں لگوا دو"۔
میں نے پوچھا کہ اس کا کیا فائدہ؟ تو کھانستے ہوئے کہنے لگے : "وقت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں اینکر بن جاۓ گا تو پھر سارا شہر بھی خرید لے گا- اب جلدی سے کسی جاننے والے کو فون کرو میرے بیٹے نے تو سکوٹر پر پریس بھی لکھوا لیا ہے"۔
محسن عباس ایوارڈ یافتہ پاکستانی نژاد کینیڈین صحافی، فلمساز اور صحافتی آزادی کے کارکن ہیں۔ وہ کینیڈا میں نئے آنے والوں اور امیگرینٹس کے لیے متعدد زبانوں کی ہفتیوار اخبار ڈائیورسٹی رپورٹر کے ایڈیٹر ہیں۔
محسن عباس سے اس ای میل editor@diversityreporter.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔