دنیا

بنگلہ دیش: جماعت اسلامی پر پابندی کے لیے قانون سازی

بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ نے جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم کے مقدمات چلانے کے لیے قانون میں ترمیم کی ہے۔

ڈھاکہ: بنگلہ دیش کی پارلیمنٹ نے جماعت اسلامی کے خلاف جنگی جرائم  کے مقدمات چلانے کے لیے قانون میں ترمیم کی ہے۔

اس ترمیم کے بعد ملک کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی پر پابندی کا راستہ کھل گیا ہے۔

اتوار کو ہونے والی ترمیم کی خبر پر ڈھاکہ میں احتجاج کرنے والے ہزاروں مظاہرین نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔

یہ مظاہرین جماعت اسلامی، جس کے رہنماؤں پر 1971ء کی جنگ آزادی میں جنگی جرائم کے مقدمے زیر التواء ہیں، پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

وزیر قانون شفیق احمد نے بتایا کہ نئے قانون کے تحت نہ صرف جنگی جرائم میں ملوث تنظیموں کے خلاف ایک خصوصی عدالت میں کارروائی چلائی جا سکے گی بلکہ جرم ثابت ہونے پر 'ان پر پابندی بھی لگ سکتی ہے'۔

خیال رہے کہ ملکی قوانین کے تحت اس سے پہلے لوگوں پر صرف انفرادی حیثیت میں ہی جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جا سکتے تھے۔

نائب وزیر قانون قمر الاسلام کے مطابق 'یہ ترمیم جماعت اسلامی پر پابندی کی سمت ایک قدم ہے'۔

یہ قدم ایسے وقت میں اٹھایا گیا ہے جب وزیر اعظم شیخ حسینہ نے ہفتے کو مذہبی تنظیم پر پابندی کی حمایت کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ 'آزاد بنگلہ دیش میں انہیں سیاست کا کوئی حق نہیں۔ ' یاد رہے کہ حسینہ کے والد، شیخ مجیب الرحمان نے 1970 کی دہائی میں جماعت اسلامی پر مختصر عرصے کے لیے پابندی لگائی تھی لیکن فوجی حکومت نے 1975 میں شیح مجیب کے قتل کے بعد یہ پابندی اٹھا لی تھی۔

بلاگر اور ڈھاکہ میں مظاہرے کے ایک آرگنائزر  محبوب راشد قانونی ترمیم کو جزوی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ جماعت اسلامی اور اس کے اسٹوڈنٹ ونگ 'شبیر' پر حتمی پابندی تک احتجاج جاری رکھیں گے۔

جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے مقدمے روکنے کے لیے ان کے حامیوں کے ملک بھر میں پرتشدد احتجاج میں اب تک تیرہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

جماعت اسلامی کے ایک اہم رہنما کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے بعد عمر قید کی سزا ملنے پر گزشتہ ہفتے پولیس اور مذہبی جماعت کے کارکنوں میں جھڑپوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔