نقطہ نظر

مفاہمت میں پیشرفت؟

پاکستان اور افغانستان دونوں ہی دو طرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور مفاہمت کو آگے بڑھانے کیلئے پرعزم ہیں

لندن میں وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کی میزبانی میں ایک سہ فریقی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی - مشترکہ اعلامیہ کی رو سے یہ کانفرنس نمایاں طور پرکامیاب رہی-

پاکستان اور افغانستان میں اس بات پراتفاق رائے تھا کہ افغانستان میں امن کے سلسلۂ عمل کو فوری طور پرآگے بڑھانے کی ضرورت ہے "انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ اگلے چھ ماہ میں قیام امن کے مقصد کوحاصل کرنے کیلئے تمام ضروری اقدامات کئے جائینگے"

طالبان کو دعوت دی گئی کہ وہ دوحہ میں اپنا دفتر قائم کریں تاکہ افغان حکومت کے ساتھ جس نے بھی دوحہ میں اپنا دفتر قائم کرلیا ہے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوسکے- آخر میں دونوں ممالک نے ازسرنو توثیق کی کہ وہ اسٹریٹجک پارٹنرشپ ایگریمنٹ (ایس پی اے) پر دستخط کرینگے تاکہ قریب تر تعلقات قائم کرنے کی حوصلہ افزائی ہو-

انگلینڈ میں اس قسم کی سربراہ کانفرنس تیسری بار منعقد ہوئی ہے لیکن اس بار اسکی نوعیت مختلف تھی کیونکہ تینوں ملکوں کے وفود میں نہ صرف سیاسی رہنما بلکہ تینوں شرکاء کے فوجی اور انٹلیجنس چیفس بھی شامل تھے-

یہ کانفرنس ایک اور لحاظ سے بھی مختلف تھی کیونکہ کانفرنس کے انعقاد سے پہلے افغانستان کے وزیر دفاع نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جسکی پہلے نظیر نہیں ملتی-

اس دورہ میں افغان حکومت نے پاکستان کے مثبت کردار کو تسلیم کیا جو وہ مفاہمت کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں ادا کررہا ہے جسکی مثال اس بات سے ملتی ہے کہ پاکستان نے طالبان کے 26 رہنما آزاد کردئے جو ان کی تحویل میں تھے- اس کے علاوہ اور بھی اشارے ملتے ہیں مثلاً یہ کہ افغانستان پاکستان کے تربیتی اداروں میں اپنی مسلح افواج کے عملے کی ٹریننگ کو فائدہ کی نظرسے دیکھتا ہے-

بظاہر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگرچہ اس وقت کانفرنس کے انعقاد کو ضرورت سے زیادہ پر امید نظروں سے دیکھا جارہاہے۔ دریں اثناء افغانستان اور پاکستان دونوں ہی پرعزم نظر آتے ہیں کہ وہ دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے اور مفاہمت کو آگے بڑھانے کیلئے کام کرتے رہینگے-

اگر دونوں ممالک اسٹریٹجک پارٹنرشپ ایگریمنٹ کرنے کے خواہشمند ہیں تو انھیں اس بات کی ضمانت دینی ہوگی کہ سرکاری طور پر کوئی ایسی کاروائی نہیں ہوگی جسکی وجہ سے سرحد پر امن میں رخنہ پڑے-

یہ امید کی جاسکتی ہے کہ کرزئی انتظامیہ اور پاکستان میں قوت کے تمام مراکز طالبان پر انتہائی دباؤ ڈالینگے اور انھیں آمادہ کرینگے کہ وہ کرزئی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے کے اپنے موقف سے دستبردار ہو جائیں- لیکن بدقسمتی سے خواہ ہم اس کے کتنے ہی خواہشمند کیوں نہ ہوں زمینی حقائق یکسر مختلف نظر آتے ہیں۔

اس حقیقت کو پیش نظر رکھئے کہ افغان وزیر دفاع جنرل بسم اللہ خان کے پاکستان کے پانچ روزہ دورے کے دوسرے ہی دن پاکستان کے گاؤں انگوراڈہ کے قریب افغانستان سے مارٹر گولوں کی بارش کی گئی جس میں چھ افراد ہلاک ہو گئے- اس سے اس معاہدہ کی نفی ہوتی ہے جو سرحد کے دونوں جانب سے ہونے والی سرگرمیوں کے خلاف بہتر تعاون کو فروغ دینے کیلئے کیا گیا تھا اور جو ان موضوعات میں سے ایک اہم موضوع تھا جو جنرل بسم الله کے دورے کے درمیان زیربحث آئے تھے-

صاف ظاہر ہے کہ اس قسم کا باہمی تعاون افغانستان کے مفاد میں ہے اور یہ سمجھنا مشکل ہے کہ آخر افغان فوجیں اسے بے اثر کیوں کرنا چاہتی ہیں-

اس بات پر غور کیجئے کہ جس دن لندن میں سہ فریقی سربراہی کانفرنس شروع ہوئی اسی دن پاکستان کے دو سو ٹرک جو کھانے پینے کی اشیاء لیکر وسط ایشیا کے مختلف شہروں کو جا رہے تھے انھیں یا تو افغان سرحد پر روک لیا گیا یا وہاں سے واپس کردیا گیا اور یہ کارروائی اس لحاظ سے جوابی کارروائی تھی کہ افغانی دعوے کے مطابق کراچی کی بندرگاہ پرافغان درآمدات کو اجازت دینے میں غیرضروری تاخیر سے کام لیا گیا تھا-

اسکے نتیجے میں پاکستان کے تاجروں نے یہ تجویز پیش کی کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ خشکی کے راستے ہونے والی افغانستان کی تجارت کو روک دے اور اگر یہ مسئلہ حسب توقع حل نہ ہو تو پھر تمام افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کو روک دیا جائے-

وسط ایشیا کے ساتھ خشکی کے راستے پاکستان کی تجارت ابھی تک ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن اگرافغانستان کو پاکستان میں سیکیورٹی کے نقطۂ نظر سے نہیں بلکہ معاشی نقطۂ نظر سے دیکھا جاتا ہے تو پھر یہ تجارت ضروری ہے-

دوسری طرف افغانستان ----- گرچہ ایران کے راستے اس کی ٹرانزٹ تجارت فروغ پارہی ہے ----- کا انحصار بھی دنیا کے باقی ممالک سے تجارت کیلئے پاکستانی بندرگاہوں پر بہت زیادہ ہے- اس لئے اگر افغانستان وسط ایشیا کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں مددگار ثابت ہوتا ہے تو اس سے خود افغانستان کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور دونوں ممالک معاشی طور پرایک دوسرے پرانحصار کرنے لگیں گے اور یہ چیز واضح طور پر افغانستان کے مفاد میں ہے اور اسی لئے افغانستان کی کسٹم اتھاریٹیز کی جانب سے کئے جانے والے اقدام کو سمجھنا مشکل ہے-

لیکن غالباً اس قسم کے اقدامات کو یہ سمجھ کر نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ مقامی افسروں کی بد نیتی کی وجہ سے ایسا ہوا ہو یا پھر افغانوں کی ایک اقلیت پاک-افغان تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتی ہے لیکن مفاہمت کے پس منظر میں یہ بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ دوحہ میں طالبان کے دفتر کے قیام کے معاملے میں افغانستان کا موقف کیا ہے-

جس دن لندن میں سربراہ کانفرنس اختتام پزیر ہوئی واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضموں شائع ہوا جس میں کرزئی انتظامیہ کے اصرار پر کہ قطر کے حکام دوحہ میں طالبان کو آفس قائم کرنے کی اجازت اس وقت تک نہ دیں جبتک کہ کرزئی انتظامیہ کے ساتھ مفاہمتی یادداشت کا تبادلہ نہ ہو جائے جس پر اوباما انتظامیہ نے اپنی مایوسی کا اظہار کیا تھا-

اس مفاہمتی یادداشت میں اس بات کی یقین دہانیاں کی جانی تھیں کہ طالبان آفس کو کسی "سیاسی مقصد" کیلئے استمعال نہیں کیا جائیگا اور یہ کہ یہاں سے صرف افغانستان سے براہ راست مذاکرات ہونگے، اوقات کار مقرر کئے جائینگے اور مذاکرات نہ ہونے کی صورت میں اسے بند کر دیا جائیگا نیز یہ کہ مذاکرات میں حصہ لینے والے تمام طالبان کیلئے لازم ہوگا کہ وہ ایسی "دستاویزات" فراہم کرینگے جن سے یہ ثابت ہو کہ وہ انکے قانونی نمائندے ہیں-

مذکورہ بالا مضمون میں یہ کہا گیا ہے کہ امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ کرزئی کے دورۂ واشنگٹن کے دوران ان کے تحفظات پر یقیں دہانی کرائی گئی تھی اور انہوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا تھا کہ طالبان کے آفس کو امریکنوں سے مذاکرات کیلئے استعمال کیا جائیگا تاکہ طالبان امریکی سپاہی کو جو انکی تحویل میں ہے رہا کردیں اور اس کے بدلے ان پانچ طالبان رہنماؤں کو رہا کیا جائیگا جو گوانتانمو میں قید ہیں اورساتھ ہی افغان ہائی پیس کونسل کے ساتھ طالبان کے مذاکرات ہونگے-

بظاہر اوباما انتظامیہ نے پاکستان کو اس کی اطلاع اس مشترکہ اعلامیہ کے فورا ہی بعد دے دی تھی جو گیارہ جنوری کو کرزئی اور اوباما کی جانب سے جاری کیا گیا تھا اور جس میں کہا گیا تھا کہ طالبان کو قطر میں اپنا آفس کھولنے کی اجازت ہوگی- بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ کرزئی نے کابل واپسی پر اپنا خیال بدل دیا شائد اس خوف سے کہ امریکی انکی انتظامیہ کی شمولیت کے بغیر ہی طالبان سے کوئی "معاہدہ" نہ کرلیں-

غیر ملکی مبصرین کرزئی کے اس موقف کو بلا جواز سمجھتے ہیں- خود انہوں نے امریکنوں کو تجویز پیش کی تھی کہ گوانتانمو کے ان پانچ قیدیوں کو رہا کر دیا جائے جن کی طالبان نے نشان دہی کی ہے تاکہ مفاہمت کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے-

طالبان نے یہ بات واضح کر دی تھی کہ ان قیدیوں کی رہائی کی ہی صورت میں انھیں اس بات کی یقین دہانی ہوگی کہ امریکی اپنی بات میں سنجیدہ ہیں اور اپنے ابتدائی روابط میں انہوں نے واضح طور پر اظہار کیا تھا کہ ایسی صورت میں وہ عوام کو یہ بتا سکیں گے کہ انہوں نے القاعد ہ کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر لئے ہیں- یہ معاہدہ اسی صورت میں طے پا سکتا ہے کہ امریکہ اور طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوں-

جیسا کہ عوام کے سامنے دئے جانے والے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے جناب کرزئی کو ڈر ہے کہ قطر کے آفس کو افغانستان کی دیگر جماعتوں کے ساتھ طالبان کے مذاکرات کیلئے استعمال کیا جائیگا-

اس خوف کی وجہ غالبا قطر کے وزیر اعظم کا وہ بیا ن ہے جو انہوں نے پندرہ جنوری کو دیا تھا اور جس میں یہ کہا گیا تھا کہ طالبان کے آفس کے قیام سے "طالبان اور افغا نستان کی دیگر سیاسی پارٹیوں کے مابین مذاکرات میں مدد ملیگی"- وہ اپنے اس مطالبے میں حق بجانب ہیں کہ طالبان صرف ان کی ہائی پیس کونسل کے ساتھ مذاکرات کریں، درایں اثناء اس بات کی یقین دہانی کی جائے کہ وفادار اپوزیشن کو کونسل کی ٹیم میں نمائندگی دی جائیگی-

چنانچہ لندن سربراہی کانفرنس کے تعلق سے اہم سوال یہ ابھرتا ہے کہ آیا مسٹر کرزئی نے دوحہ میں طالبان کے آفس کی ضرورت کو تسلیم کر لیا ہے اور یہ کہ آیا انکے مطالبے کوتسلیم کرلیا گیا ہے کہ افغانستان کی جانب سے صرف وہی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کے مجاز ہیں-


ترجمہ . سیدہ صالحہ

نجم الدین شیخ

لکھاری سابق خارجہ سیکریٹری ہیں۔ اس وقت آئی او بی ایم کے شعبہ گلوبل اینڈ ریجنل اسٹیڈیز سینٹر کے سبربراہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔