نقطہ نظر

"صحافت کے "بابے

بچپن اور جوانی کی زندگی تو اپنے آپ گزر جاتی ہے مگر عہدِ پیری میں زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے

صحافت میں سترے بہترے بابوں کی کوئی کمی نہیں۔ یہ عمر اگرچہ خدا سے لو لگانے کی ہے لیکن یہ بابے ملکۂ پکھراج کے اس شہرۂ آفاق گیت کے سحر سے نکل نہیں پائے کہ "ابھی تو میں جوان ہوں" اور اس غلط فہمی کے باعث ان کی "حماقتوں" میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

ممکن ہے کہ انہوں نے لالی وڈ کی چند برس قبل ریلیز ہونے والی فلم "بڈھا شیر" دیکھ لی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ میں ان بزرگوں کی شان میں گستاخی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ اگر ان میں سے کوئی "چڑیا دانشور" کی عرفیت سے مشہور ہوا ہے یا "ممولہ" قرار پایا ہے تو اس میں میرا کوئی دوش نہیں۔ ایک بابے کو "کالیا" کا خطاب ملا۔ ہوسکتا ہے کہ ان بزرگوں کی طویل رفاقت اس جملہ بازی کا سبب ہو۔

میرا پہیلیاں بجھوانے کا کوئی ارادہ نہیں کیوں کہ یہ ذمہ داری ان بزرگوں نے سنبھال رکھی ہے جو ایک دوسرے کو اشاروں کنایوں میں مخاطب کرنے کے فن میں خوب مہارت رکھتے ہیں۔

چند روز قبل ایک صاحب نے واشنگٹن ڈی سی میں مقیم اپنے ایک دوست کو "خشک پیڑ کی مردہ ٹہنی پر بیٹھے ممولے" سے تعبیر دیتے ہوئے طنزیہ طور پرلکھا کہ "ایک این آر او نمبر2 تیار تھا۔ مگر ان کی چونچ ہلنے سے پاکستان کا جمہوری نظام بچ گیا"۔

ان موصوف نے محض اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ طنز کے نشتر چلاتے رہے اور مزید لکھا: "ایسے طلسمات پر یقین رکھنے والے ہر زمانے میں موجود ہوتے ہیں۔ عقل و فہم کا غلبہ ہو تو ایسی چیزیں توجہ اور نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور اگر عقل و ہوش کی جگہ اندھی خواہشیں، توہمات اور جہالتیں لے لیں، تو پھر دکھائی دینے لگتی ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ طلسمات کا زمانہ تو اب بھی موجود ہے۔ دکھائی صرف اس وقت دیتا ہے، جب ہم ہوش و خرد سے محروم ہو کر توہمات، ہذیان اور بے نیند کے خوابوں پر یقین کرنے لگتے ہیں۔"

اگرچہ یہ دونوں بابے "سترے، بہترے" کی اصطلاح پر پورا نہیں اترتے اور اسّی سے کچھ زیادہ کے ہی ہوں گے لیکن اگر دل جوان ہو تو عمروں میں کیا رکھا ہے۔

دوسرے صاحب نے اس مذاق کو اس قدر "سیریس" لیا کہ انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤاور اپنے دوست کو عمر رسیدہ ہی قرار دے ڈالا۔ وہ کچھ یوں گویا ہوئے: "قلم کے ساتھ ظلم کرنے والے کچھ عمر رسیدہ لکھاری بے خود ہوکر ایسے لوٹ پوٹ ہورہے ہیں کہ کبھی اپنی چھینکوں سے گورنر ہاؤس کو گرانے کا دعویٰ کرنے لگتے ہیں اور کبھی انہیں گھر بیٹھے ہزاروں میل دور کے ممولے نظر آنے لگتے ہیں۔ شاید انہیں دن میں ڈراؤنے خواب آنے لگے ہیں۔ ڈر لگتا ہے کہیں گھبراہٹ میں اپنے ہی گھر کی طرف منہ کرکے چھینک نہ مار دیں۔"

ان کے اس کالم کا عنوان "تیرا کیا ہوگا، کالیا؟" تھا۔ اگلے ہی روز ان کو اینٹ کا جواب پتھر سے مل گیا جب پہلے صاحب نے لکھا: "پہلے جمعے کے جمعے، زرداری حکومت جانے کی تاریخ دیا کرتے تھے۔ پھر مہینے کے مہینے، جب تین سال گزر گئے اور موصوف کی دی ہوئی تاریخوں پر لوگوں نے ہنسنا شروع کر دیا تو تاریخیں دینے سے باز آگئے۔"

ان کے لہجے میں طنز کا رنگ غالب رہا: "تاریخوں کے تھپیڑے کھاتے کھاتے کچھ ایسے بوکھلائے کہ گزشتہ روز انہوں نے مخالفین کے خلاف کالم لکھ کر، عنوان اپنے خلاف لگا دیا۔" تیرا کیا ہوگا کالیا؟"

ظاہر ہے کالیا کا وہی ہوگا بلکہ ہو رہا ہے، جو غلط پیش گوئیاں کرنے والے جعلی نجومیوں کا ہوتا ہے۔ لوگ آوازے لگاتے ہیں۔ طعنے دیتے ہیں۔ پھٹکارتے ہیں اور پھر ٹھاپیں مارنے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ بلیک ڈاگ کا نشہ ہرن ہوجاتا ہے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب یہ دونوں حضرات ایک ہی ادارے سے منسلک تھے۔ ان دنوں مسٹر"ممولہ" (یہ دوستوں کے ایک دوسرے کو مذاقا دیئے گئے نام ہیں، اور آسانی کے لیے اسی طرح لکھے جارہے ہیں۔) نے اپنے ماتحتوں سے "کالیا" کو کال کروائی اورحکومت سے پلاٹ لینے پر ان کے خوب لتے لیے جس پرموصوف نے کچھ برہمی کا اظہار کیا تو اس گفتگو کی ریکارڈنگ انٹرنیٹ پر اَپ لوڈ کر دی گئی جس کے باعث ان کی جان پر بن آئی ۔ اس کی ایک وجہ ان کا حکومت سے قریب ہونا بھی تھا۔

مسٹر "ممولہ" پرامید تھے کہ وہ امریکہ میں پاکستانی سفیر بن جائیں گے لیکن جب زرداری حکومت نے ان کی بجائے حسین حقانی کو اس عہدے کے لیے موزوں خیال کیا تو ان سے اپنی یہ توہین برداشت نہیں ہو پائی اوروہ پیپلز پارٹی کی حکومت سے اس حد تک نالاں ہوگئے کہ روز رات کو سونے سے قبل حکومت کی رخصتی کی تاریخ دینا نہ بھولتے۔ ان کے کئی تجزیے غلط ثابت ہوئے لیکن اس کے باوجود وہ بچوں کی طرح ضد پر اڑے ہوئے ہیں اور ہنوز حقائق سے ماورا تبصرے کر رہے ہیں۔

لیکن دوسرے صاحب بھی کچھ کم نہیں۔ وہ نواز شریف کے دورِ حکومت میں ان کے لیے تقریر لکھا کرتے تھے۔ آنے والے برسوں میں مشرف کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب رہے اور 2008ء کے انتخابات کے بعد صدر زرداری کے منظورِ نظر بنے۔

ایک اور صحافی جو مذکورہ بالا صاحبان سے نسبتاً کم عمر ہیں، لیکن دانش میں خود کو سب سے بڑھ کر تصور کرتے ہیں، کچھ "سٹھیا" گئے ہیں۔ مشرف حکومت برسرِاقتدار آئی تو انہوں نے چند روز بعد ہی غیر جمہوری حکومت کی حمایت میں زمین و آسمان کے قلابے ملانا شروع کر دیئے تھے لیکن فی الحال عمران خان کے سیاسی مشیر ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ "کپتان" کی اصطلاح بھی انہوں نے ہی متعارف کروائی ہے۔

انہوں نے ایک ساتھی کالم نگار اور صحافی کو "چڑیا دانشور" کے نام سے مخاطب کرکے تفریح کا خوب سامان پیدا کیا ہے۔ لکھتے ہیں: "اخبار نویس نے بے پرکی ہانکی کہ زرداری نواز ملاقات کے دوران ان کی ایک چڑیا صدر اور دوسری اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ہوگی۔ ان کی ایک ہی چڑیا ہے اور ان دونوں کے گرد منڈلاتی ہے۔ فقط مرکزی اور صوبائی حکومت ہی نہیں، ق لیگ اور ایم کیو ایم کی لیڈر شپ میں بھی ان کے رفیق ہیں۔"

ممکن ہے کہ ان کے مخاطب کی اس تبصرے پر نظر نہ پڑی ہو، ورنہ قوی امکان تھا کہ وہ ٹی وی سکرین پر ان کی نقل اتارتے ہوئے نظر آتے۔

بزرگانِ صحافت کی فہرست میں شامل ایک اور کالم نویس (اب اینکر پرسن بھی ہیں) نہ صرف ٹی وی پر بلکہ اپنی تحریروں میں بھی ہمہ وقت نالاں نظر آتے ہیں۔ وہ پیپلز پارٹی کے قریب رہے، ایم کیو ایم اور تحریک انصاف سے تبدیلی کی امید رکھی اور شیخ الاسلام طاہرالقادری کو بھی مایوس نہیں کیا۔ کچھ عرصہ قبل ایک تقریب میں اناپ شناپ بول رہے تھے کہ ایک صحافی سے ان کی گفتگو ہضم نہیں ہوپائی اور وہ ان پر چڑھ دوڑے۔

شاید اس "بدتمیزی" پر اترنے والے صحافی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اس عمر میں زبان کی لغزش حیرت انگیز نہیں۔

عمر خیام کی ایک رباعی کا ترجمہ کچھ یوں ہے: "بچپن اور جوانی کی زندگی تو اپنے آپ گزر جاتی ہے مگر عہدِ پیری میں زندگی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔" اس لیے اگر بزرگان تھوڑا بہت مذاق کرکے اپنا دل بہلا لیتے ہیں تو مخل ہونے کی ضرورت ہی کیا ہے۔


علی ظیف
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔