II - نیو آرمی ڈاکٹرائن
یہ بلاگ چار حصّوں پر مشتمل سیریز کا دوسرا حصّہ ہے جس میں پاکستان کے اندرونی دشمن کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے؛ اور یہ کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے کیوں اور کیسے اس خونخوار عفریت کو کئ دہائیوں تک پالا. پہلا حصّہ یہاں دیکھیے.
افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا ہماری قیادت اور فوج کی نظر میں اندرونی دشمن سے مراد وھی لوگ ہیں یا نہیں جو اس مملکت اور معاشرہ کو تباہ کرنے کے لئے اسلام کو اپنی قوّت اور تائید کے طور پر استعمال کرتے ہیں- یوں لگتا ہے جیسے مملکت اور معاشرہ کو ابھی تک اس کا احساس نہیں کہ یہ قوت ان دونوں کو تباہ کرنے پر تلی ہے.
شاید اصل بات یہ ہے کہ قاتل کی حیثیت ایک محبوب اور مقدّس ہیرو کی سی ہے کیونکہ وہ عملی طور پر وہ نظام نافذ کرنے کے لئے جنگ کر رہا ہے جس کا معاشرہ اور مملکت دم تو بھرتے ہیں مگر نافذ نہیں کرتے.
مملکت اور معاشرہ جہاں عربی ملا کے اسلام سے محبّت جتاتے ہیں وہاں یہ بھی سچ ہے کہ وہ اسے زندگی بنانے پر تیار نہیں. کئی نسلوں سے اس معاشرہ کو بتایا جا رہا ہے کہ مملکت کے تمام تر وسائل صرف اسلام کے لئے ہیں اور اسلام کے دشمن سے جنگ کے لئے ہیں.
اصل بات یہ ہے کہ قاتل کی حیثیت ایک محبوب اور مقدّس ہیرو کی سی ہے کیونکہ وہ عملی طور پر وہ نظام نافذ کرنے کے لئے جنگ کر رہا ہے جس کا معاشرہ اور مملکت دم تو بھرتے ہیں مگر نافذ نہیں کرتے.
اقتدار میں بیٹھے مغرب زدہ حضرات کو یقین تھا کہ یہ نعرہ ان کی آفیسر میس والی زندگی میں مخل ہوئے بغیر ان کے کام سیدھے کرتا رہے گا لیکن مودودی، مفتی اور عثمانی ان کے غلام نہ تھے. ان کے عزائم عظیم اور عرب کی مقدّس سلطنت ان کی پشت پر تھی. جیسے جیسے جرنیل اور بیوروکریٹ خوشحالی اور جائداد کی دوڑ میں ڈوبے، منظم اسلام اقتدار کے نچلے مراکز میں داخل ہوتا چلا گیا. اس نے ہماری نیم آزاد روش کو فحاشی، عریانی اور الله سے بغاوت قرار دے کرمعاشرہ کو اپنے کوڑے کے نیچے رکھ لیا. عمل اور ایمان کا تضاد گہرے احساس جرم کو جنم دیتا ہے، لہذا معاشرہ اور اسکے حکمران سکول سے بھاگے لڑکوں کی طرح مقدّس مولانا کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے.
پاکستان کے کروڑوں غریب عوام کو کوئی احساس جرم نہ تھا لیکن ان کے محبوب قائد جناب بھٹو کو اپنا لوھا پگھلتا محسوس ہوا تو وہ مولانا مودودی کے حجرے میں اپنے "گناہ" معاف کرانے چلے گئے. پھر جان دے دینے کے فیصلے نے بھٹو صاحب کو عوام کے ہاں مستقل جگہ دلائی، شاید اس لئے کہ سادہ دل عوام سادہ اور آسانیاں دینے والے اسلام سے محبّت کرتے ہیں اور انہیں تضاد سے جنم لینے والا وہ احساس گناہ تنگ نہیں کرتا جو ہمارے خوش حال متوسط طبقوں کو ستاتا رہتا ہے.
جلد ہی ہر صاحب حیثیت شخص کو سمجھ آ گئی کہ دونوں ہاتھوں سے لپیٹے مار کر گندے ہاتھ پاک کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ لوگوں میں آؤ تو گناہ اور الزام کسی اور پر ڈالتے رہو لیکن تنہائی میں توبہ کرتے جاؤ. چنانچہ ضیاء الحق کا ظہور عین فطری تھا جبکہ مشرف کا آنا اتنا غیر فطری کہ اس غیر اسلامی "گند" کو صاف کرنے کے لئے اسلامی ملک پر مسلح حملہ ضروری ہو گیا.
آج جب مقدّس جنگ باز ہمارے فوجیوں پر حملہ کرتے ہیں یا ہمارے عوام کے چیتھڑے اڑاتے ہیں تو نفرت کا رخ مجاہد کی طرف ہونے کی بجاتے "ریا کار" حکمرانوں کی طرف ہو جاتا ہے. لہٰذا مقدّس جہادی کی تباہ کاری پر نفرت کا وہ رویہ اختیار نہیں کیا جاتا جس کے حقدار ہندوستان اور امریکا سمجھے جاتے ہیں. شاید یہی وجہ ہے کہ "اندرونی دشمن" اتنا یکسو اور منظّم ہے جبکہ ہمارے لیڈر، جرنیل اور متوسط طبقے بے تکے انداز سے لمبے ہو جانے والے کمزور پودوں کی طرح لرزتے اور جھولتے رہتے ہیں.
پاکستان کے پہلے وزیر اعظم جناب لیاقت علی خان کو سوویت روس کے دورے کی دعوت ملی تو آپ نے اس سے بچنے کے لئے سراسیمگی کے عالم میں امریکا سے درخواست کی کہ انھیں دورے کی دعوت دی جاۓ. یوں ہمارے اس دل چسپ سفر کا آغاز ہوا جو بتدریج تباہی کی طرف جاتا تھا: اسلام براۓ امریکا جو روسیوں سے لڑے گا اور اسلام براۓ پاک فوج جو ہندوستان سے جنگ کرے گا.
ہم ہر بار ہندوستان سے جنگ کر کے ہارے کیونکہ امریکا نے ہمارا ساتھ نہیں دیا جبکہ ہم روس کے خلاف جیتے کیونکہ آزاد دنیا پیچھے کھڑی تھی.
بہت برس بعد جب مشرقی پاکستان چلا گیا اور نظریہ پاکستان مشکوک ہونے لگا تو اس میں نئی جان ڈالنے کے لیے بھٹو صاحب نے ہمارے ازلی دشمنوں میں ایک اور کا اضافہ کر لیا. اب ہمارے پاس روسی دہریت کے ساتھ ساتھ ہنود و یہود کی جوڑی بھی بن گئی. اب ایک ھزار سال لڑنے کے لئے ہمارے پاس مشرق میں ایک ھزار اور مقدّس سرزمینوں کے پار مغرب میں ایک اور ھزار میل کا علاقہ آ گیا.
ہم نے ایٹمی گڑھے میں اتنا قومی خون ڈالا کہ قوم جو پہلے ہی نشے میں جھوم رہی تھی خون کی کمی سے بیہوش ہو گئی. اسلامی بم کا پھل کتنا میٹھا تھا؟ ہم نے بھٹو کھو دیا. یہ ہمارے مغربی استاد کی طرف سے سزا تھی کیونکہ اسے علم تھا کہ روس کے خلاف اس بم کی کوئی حیثیت نہیں جبکہ مذہبی جذبات سے لبریز اس قوم کے ہاتھوں میں یہ بم ہندوستان اور اسرائیل کے لئے خطرناک ہوگا.
ہم ہر بار ہندوستان سے جنگ کر کے ہارے کیونکہ امریکا نے ہمارا ساتھ نہیں دیا جبکہ ہم روس کے خلاف جیتے کیونکہ آزاد دنیا پیچھے کھڑی تھی.
ہم نے یہ ماننے سے مسلسل انکار کیا کہ امریکا ہی نہیں بلکہ ساری دنیا ہندوستان اور اسرائیل کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے. صرف چین نے ہندوستان کے خلاف کچھ عرصہ ہماری حمایت کی پھر ہم نے سنکیانگ میں چین کو اپنے مقدس دانت دکھاۓ اور ہندوستان نے چین سے مراسم بڑھا لئے. اسرائیل کے خلاف ہماری حمایت سعودی عرب نے اس طرح کی کہ ہمیں کبھی کبھی بلا معاوضہ پاکیزہ شاہی ہاتھوں کو چومنے کی اجازت تھی.
"اندرونی دشمن" در اصل معقولیت سے نفرت کرنے والی ایسی کرخت ذات ہے جسے خود اپنے قانون اور زندگی سمیت زندگی اور قانون کی کسی شکل کا احترام نہیں. خود وہ ذہنیت ہی منفی ہے جس نے پارسائی کی دعویدار اس خود پسند نسل کو پیدا کیا ہے. یہ ذہنیت "اپنے" کے مقابلہ میں تمام "اوروں" کے وجود کی نفی کر کے انھیں رد کرتی ہے حتہ کہ "ہم " اور "ہمارے" علاوہ کچھ بھی تعریف کے قابل نہیں بچتا یعنی ہم جو کچھ بھی کریں منصفانہ اور برحق ہو جاتا ہے.
رسول الله صلعم دعا کرتے تھے کہ اے الله مجھے چیزوں کی چھپی حقیقتوں کا علم عطا کر مگر مسلم معاشروں نے ہمیشہ صرف امام، حافظ اور مجاہد ہی پیدا کیے.
المیہ یہ ہے کہ ایک ہزار برس سے ہم مسلم عوام کا کردار صرف یہ رہا ہے کے ہم اپنے مسلم حکمرانوں کے لئے طاقت کی بنیاد بنے رہے ہیں، ان کے فوجی ان کی پولیس اور ان کے زرعی کارندے رہےہیں. مسلم حکمرانوں کی رعایا کے ساتھ مسلسل کشمکش، مذہب پر حد سے بڑھ کر انحصار اور لکیر پرست علما کا غلبہ، ان عوامل نے ملکر مسلم عوام اور انکی رعایا کی مثبت انسانی تخلیقی صلاحیتوں کو خشک کر دیا.
رسول الله صلعم دعا کرتے تھے کہ اے الله مجھے چیزوں کی چھپی حقیقتوں کا علم عطا کر مگر مسلم معاشروں نے ہمیشہ صرف امام، حافظ اور مجاہد ہی پیدا کیے. عقل اور تنقیدی فکر نےمسلم معاشروں میں صرف ایک صدی تک نشو و نما پائی لیکن امام حنبل کے ہاتھوں یہ ایک ناجائزحرکت کی طرح دبا دی گئی جسے امام غزالی نے ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا. معتزلہ کی فیصلہ کن شکست کے ساتھ ہی سوچنے اور اختلاف کرنے کی تحریک سختی سے کچل دی گئی. چونکہ تخلیق کا عمل سوچنے اور اختلاف کرنے کی آزادی مانگتا ہے لہٰذا مسلم تہذیب نے تخلیقی صلاحیت گنوا دی. گرچہ روحانیت اور پارسائی کا فخر مسلم نفسیات میں کوٹ کوٹ کر بھرا گیا، تاہم ہماری دنیا کم اندیش خود غرضی اور رٹے بازی میں ڈوبی رہی۔
معتزلہ کی فیصلہ کن شکست کے ساتھ ہی سوچنے اور اختلاف کرنے کی تحریک سختی سے کچل دی گئی. چونکہ تخلیق کا عمل سوچنے اور اختلاف کرنے کی آزادی مانگتا ہے لہٰذا مسلم تہذیب نے تخلیقی صلاحیت گنوا دی
تجارت نے مسلم تہذیب میں ایسی ترقی کی جو تاریخ کے کسی پہلے دور میں نہیں ہوئی تھی لیکن دوسرے میدانوں میں ترقی اور اصلاح مسلم امّت کے لئے اجنبی ہو کر رہ گئے۔ زراعت، حرفت، نقل و حمل، جہاز رانی، سیاسی نظام، صحت، تعلیم اور انتظامی مسائل صدیوں تک جمود کا شکار رہے، شاید اس لئے کہ فاتح اور تاجر کو ایجاد کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ حتیٰ کہ سامان حرب جو ہماری قوت کی بنیاد تھا، اس بری طرح روایتی رہا کہ جب منگول وارد ہوئے تو ہمیں پتہ چلا کہ ہم کشتوں کے پشتے لگانے اور تیز گھڑ سواری میں اول و یکتا نہ تھے۔
ہمارے لیڈروں اور جرنیلوں کو تاریخ اور زندگی کے ان حقائق پر نظر ڈالنی چاہیے۔ ہمیں جرم، نیکی اور صلاحیت سے متعلق اپنے متوسط طبقوں کے نظریات کی اصلاح کے لئے ایک وسیع قومی سیمینار شروع کرنا ہوگا۔
ضروری ہے کہ علاقائی اور عالمی اقتدار کے لئے سیاسی اسلام والوں کے تباہ کن عزائم کو بے نقاب کیا جاۓ کہ جو صلاحیت سے عاری ہونے کے سبب خود کشی کے مترادف ہیں۔ اسلام کو ایک نرم اور مہربان رستے کی حیثیت سے بحال کرنا بے حد اہمیت رکھتا ہے، ایک ایسا راستہ جو اخلاقی حسن اور انکسار کی طرف لے جاتا ہے۔ اسلام کا ویسا موجودہ رول ختم ہونا چاہیے جس سے وہ ایک جارحیت پسند مگر تخلیقی صلاحیت سے عاری ملا کے ہاتھ کا ہتھیار بن جاتا ہے۔
لیکن یہ سب کچھ صرف اس وقت شروع ہو گا جب ہمارے قائدین خطرے کا ادراک کرتے ہوئے اپنے تزویراتی "اثاثے" ترک کریں گے۔ یہ خبریں بے حد پریشان کن ہیں کہ تزویراتی گہرائی اور بلیک میل کی مفت بری جاری رکھنے کے ارادے ابھی باقی ہیں۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر بحالی کی کوئی امید نہیں۔
(جاری ہے... )