دنیا

سارز جیسا ایک نیا وائرس دریافت

کرونا وائرس گزشتہ برس ستمبر میں سامنے آیا تھا اور اب تک پانچ افراد کی جان لے چکا ہے۔

لندن: سیویئر اکیوٹ ریسپائٹری سنڈروم یا سارز کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک نئے وائرس نے گزشتہ ستمبر سے اب تک دنیا بھر میں ہلچل مچادی ہے۔ انگلینڈ میں اس کے نئے مریض منظرِ عام پر آئے ہیں۔

اس نئے وائرس کو 'کرونا وائرس' کا نام دیا گیا ہے اور اب اس کے دس نئے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں پانچ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

وہ برطانوی مریض جو حال ہی میں مشرقِ وسطیٰ اور پاکستان گئے تھے اب، شمالی انگلینڈ کے مانچسٹر ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے شعبے میں موجود ہیں۔

اس نئے وائرس میں کچھ خصوصیات سارز کی ہیں۔ یہ کرونا وائرس 2002 میں چین میں منظرِ عام پر آیا تھا اور پوری دنیا میں اس سے متاثر ہونے والے 8000 افراد میں سے دس فیصد ہلاک ہوگئے تھے ۔ ان علامات میں سانس لینے میں تکلیف، کھانسی اور شدید بخار شامل ہے۔

یہ نیا وائرس اس وقت دریافت ہوا جب عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) نے ستمبر 2012  میں ایک وارننگ جاری کی اور کہا کہ پہلے سے نامعلوم ایک انسانی وائرس سے ایک قطری باشندہ اس وقت متاثر ہوا ہے جو حال ہی میں سعودیہ عرب گیا تھا۔

برطانیہ کی ہیلتھ پروٹیکشن ایجنسی ( ایچ پی اے) کے مطابق ( اس نئے وائرس کے ) اب تک دس کیسز کی لیبارٹری میں تصدیق ہوچکی ہے۔ ان میں سے پانچ سعودیہ عربیہ سے تعلق رکھتے ہیں جن میں تین کی ہلاکت ہوگئی۔ دو اردن کے کیس ہیں اور وہ دونوں بھی مرچکےہیں۔ جبکہ دو برطانیہ میں ہیں جن کا علاج جاری ہے۔ ایک جرمنی اور ایک قطر میں ہے۔

ایجنسی نے یہ بھی کہا ہے کہ (برطانیہ میں) مریضوں کا بہتر علاج کیا جارہا ہے اور علاج کرنے والا عملے کی حفاظت بھی یقینی بنائی گئی ہے۔ مریضوں سے رابطہ کرنے والے افراد کو نہ صرف ٹریک کیا جارہا ہے بلکہ ان کی صحت کی دیکھ بھال بھی کی جارہی ہے۔

' ہمارا تجزیہ ہے کہ اس خاص کرونا وائرس سے برطانیہ میں رہنے والی آبادی متاثر ہونے کے خطرات بہت کم ہیں ۔ دوسری جانب عرب جزیرہ نما اور اطراف کے ممالک جانے والوں کو بھی بہت معمولی خطرہ ہے،' ایچ پی اے کے ایک آفیشل نے کہا۔

کرونا وائرس عموماً سانس کے انفیکشنز کی طرح پھیلتا ہے مثلاً فلو کی طرح اور ہوا میں متاثرہ شخص کی کھانسی اور چھینک سے شامل ہونے والے بخارات سے بھی پھیل سکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے ستمبر میں اپنی ابتدائی تحقیقات کے بعد یہ کہا تھا کہ وائرس کی ایک انسان سے دوسرے انسان تک منتقلی بہت آسان نہیں۔