صادقین نے اپنا پہلا میورل کراچی ایئر پورٹ پر بنایا، کراچی میں جناح ہسپتال اور منگلا ڈیم کے علاوہ سینڑل ایکسائز لینڈ، کمشنر کلب اور سروسز کلب کی دیواروں پر موجود شاہکار صادقین کی تخلیقات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ 1961ء میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کراچی کی لائبریری میں وقت کے خزانے کے نام سے شاندار میورل تخلیق کیا، اس عظیم الشان فن پارے میں انہوں نے سقراط سے لے کر آئن اسٹائن تک ہر عہد کے علمی اور سائنسی ارتقائی ادوار کو اس قدر مہارت اور خوبصورتی سے پیش کیا ہے کہ دیکھنے والا مبہوت ہوکر رہ جاتا ہے۔
غالب کی صدسالہ برسی کے موقع پر 1969ء میں صادقین نے کلام غالب پر پچاس وسیع وعریض اللسٹریشنز تیار کیں۔
صادقین کو کئی ملکی غیر ملکی ایوارڈز، انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا۔ ان کے شاہکار ‘The Last Supper’ نے سب سے زیادہ شہرت حاصل کی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان، منگلا ڈیم پاور ہاؤس، لاہور میوزیم، علیگڑھ مسلم یونیورسٹی، بنارس ہندو یونیورسٹی، جیولوجیکل انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، فریئر ہال کراچی، ابو ظہبی پاور ہاؤس اور پنجاب یونیورسٹی جیسی اہم عمارتوں کے علاوہ بالخصوص پیرس کے مشہور زمانہ شانزے لیزے میں صادقین کے منقش فن پارے آنے والی نسلوں کو صادقین کی فنی عظمت کی یاد دلاتے رہیں گے۔
بھرپور ستائش ملنے کے باوجود صادقین دنیا کی بھیڑ میں گم ہونے کے بجائے اپنے فن کی دنیا میں ہی رات دن مگن رہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے دنیا اس جوہر نایاب کو صحیح معنوں میں پہچان نہ سکی، وہ جانتے تھے کہ وہ دنیا کو کیا دے رہے ہیں، لیکن ان کے ہم وطنوں کی بڑی تعداد ان کی صلاحیتوں سے بے خبر رہی۔
شاید بہت کم لوگوں کو یہ علم ہو کہ صادقین بہت اچھے شاعر بھی تھے، ان کی رباعیات بھی اسی قدر کمال کی ہیں جس قدر کہ ان کی مصوری کے شاہکار کمال کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی رباعیات پر مشتمل دو کتابیں ‘رباعیاتِ صادقین خطّاط’ اور ‘رباعیاتِ صادقین نقّاش’ شایع ہوچکی ہیں۔
صادقین کا انتقال 10 فروری 1987ء کو کراچی میں ہوا۔ انہیں سخی حسن قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا، لیکن ان کا فن انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گا۔
آخر میں صادقین کی کچھ رباعیات، جن میں آپ کو مصوری کے شاہکار محسوس ہوسکتے ہیں، جس طرح ان کی شاہکار تصویروں شعر کہتی محسوس ہوتی ہیں۔
ایک بار میں ساحری بھی کرکے دیکھوں
کیا فرق ہے شاعری بھی کرکے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوری بھی کرکے دیکھوں
*****
میں بغض کے انبار سے کیا لاتا ہوں
اس میں بھی عقیدت کی ادا لاتا ہوں
جو زہر کہ واعظ نے ہے اُگلا اُس سے
تریاق نکالے ہی چلا جاتا ہوں
*****
خود اپنے طریقے میں قلندر میں ہوں
خود اپنے سلیقے میں ہنر ور میں ہوں
خود اپنے بنائے ہوئے آئینوں میں
خود گیر ہوں خودنگر ہوں خودگر ہوں میں
*****
ہر نقش میں تھا جلوۂ ایماں ساقی
آ کر ہوئے مایوس و پریشاں ساقی
کل میری نمائش میں بڑے مولوی آئے
یہ سُن کے کہ تصویریں ہیں عریاں ساقی
*****
عاشق کیلیے رنج و الم رکھے ہیں
شاہوں کیلیے تاج و علم رکھے ہیں
میرے لیے کیا چیز ہے؟ میں نے پوچھا
آئی یہ صدا لوح و قلم رکھے ہیں
*****
یہ تو نہیں قدرت کا اشارہ نہ ہوا
میں پھر چلا سوئے کفر، یارا نہ ہوا
اسلام سے بندے کا مشرّف ہونا
اسلام کے مفتی کو گوارا نہ ہوا