ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس کے نتیجے میں میڈیا میں ہونے والی پیشرفت نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر دیا ہے۔
میڈیا کی بھرمار میں ہم ایک بہت ہی اہم اور سستے بلکہ مفت میڈیم کو توبھول ہی چکے ہیں یعنی عوامی بیت الخلاء جہاں کے درودیوار پر لکھی تحریروں اور تجریدی آرٹ کے نمونوں سے نہ صرف لوگوں کے خیالات سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اور لکھنے والوں کی ذہنیت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان سے معاشرے کی بھی ایک دھندلی تصویر سامنے آتی ہے۔
زرا تصوّر کریں، آپ گھرسے کہیں دور مٹر گشت کے لئے نکلے ہوئے ہیں یا کسی ضروری کام کی خاطر یا خریداری کی نیّت سے آپ دور کسی بھیڑ والی جگہ پر آگئے ہیں اور اچانک آپکو پیٹ میں گڑبڑ کا احساس ہوتا ہے۔ پہلے پہل تو آپ اسکی زیادہ پرواہ نہیں کرتے اور معمول کی بات سمجھ کراپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں لیکن کچھ دیر کے بعد آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ معاملہ معمول سے کہیں بڑھ کر ہے۔ تب آپ ساری دھماچوکڑی،ضروری کام اورخریداری بھول کرآس پاس نظر دوڑانے لگتے ہیں۔ ہر طر ف لوگوں کی بھیڑ۔ اگر کوئی چھوٹا مسئلہ ہوتا تو کہیں کسی کونے کھدرے میں بیٹھ کر دنیاومافیہا سے بے نیاز ضرورت پوری کر بھی لیتے لیکن ایسی صورت حال میں؟
آپ کچھ دیر کے لئے علاقے کا پورا نقشہ ذہن میں لاتے ہیں تو یاد آتا ہے کہ تیسری گلی میں کبھی ایک عوامی بیت الخلاء ہوا کرتا تھا۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید اب بھی وہ وہاں موجود ہو آپ تیز قدموں کے ساتھ سوئے منزل روانہ ہو جاتے ہیں۔
منزل کے قریب آتے آتے پیٹ کے جوش و جزبے میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ منزل مقصود پہ بھِیڑنہیں لگی۔ اورپھر جب آپ زرا ہلکا ہوکر مطمئن ہو جاتے ہیں تو پہلی بار آپکو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ پسینے میں بھیگ رہے ہیں۔ کسی طرح جیب سے رومال نکال کر آپ پسینہ پونچھنا شروع کرتے ہیں تب آ پ کی نظر بیت الخلاء کے دروازے پر پڑتی ہے جہاں مختلف قسم کی تحریروں اور تصویری شاہکاروں کی بھرمار ہے۔ یہی صورتِ حال دیواروں کی بھی ہے۔ ہر طرف زندہ باد مردہ باد کے نعرے، گندی گالیاں، وزن سے عاری فحش اشعار اور آڑھی ترچھی لکیریں جیسے کسی نے کوئی شاہکار تخلیق کرنے کی کوشش کی ہو۔
ان نیک مقاصد کی تکمیل کے لئے اگر کسی نے چاک کا سہارا لیا ہے تو کسی نے کوئلے کا، کسی نے پنسل سے کچھ لکھا ہے تو کسی نے چاقو کی نوک سے بلکہ مشکوک رنگ کی کچھ تحریروں کو دیکھ کر تو آپ فوراَ سمجھ جائیں گے کہ کسی من چلے نے کچھ ذیادہ ہی جذباتی ہوکر کچھ لکھنے کی کوشش کی ہوگی لیکن اس مقصد کیلئے کوئی چیز نہ پاکر نا صرف اپنے ہی "خونِ جگر" میں اُنگلیاں ڈبولی ہونگیں بلکہ بعد میں اپنی تخلیق دیکھ کر خود ہی دانتوں میں اُنگلیاں دبا بھی لی ہونگیں۔
اب کسی کو کیا معلوم کہ یہ کارستانی کس کی ہے کیونکہ وہاں لکھنے والا نہ تو اپنا نام ظاہر کرتا ہے نہ اپنی شناخت۔ بس اپنا بوجھ اور فرسٹریشن اتار کے کسی پتلی گلی سے نکل جاتا ہے۔ کچھ بھی ہو ایک بات طے ہے کہ عوامی بیت الخلاء ایک ایسی جگہ ہے جس کی دیواروں پہ کوئی بھی اپنی شناخت ظاہر کئے بناء اور نتائج کی پرواہ کئے بغیر کچھ بھی لکھ سکتا ہے۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ شاید جو لوگ اپنی بات برملا نہیں کہہ سکتے وہ ایسی ہی جگہوں پر اپنے دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں۔
اسی پہ کیا موقوف، اب تو یار لوگوں نے سماجی رابطوں کی خاطر وجود میں آنے والی ویب سائٹس کو بھی انہی مقاصد کے لئے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ اب اسی فیس بک کو ہی لے لیجئے جہاں اگر بہت سارے لوگ اسے اس کے صحیح معنوں یعنی دوستوں، رشتہ داروں اور جان پہچان والے لوگوں سے رابطے اور خیالات کے تبادلے کے لئے استعمال کرتے ہیں وہاں ایسے لوگوں کی بھی کوئی کمی نہیں جنہوں نے فیس بک کو بھی پبلک ٹوایلٹ بنا رکھا ہے۔
وہی گالم گلوچ اور دھونس دھمکی، وہی زندہ باد مردہ باد، اسکے علاوہ جھوٹی خبریں، من گھڑت قصّے کہانیاں، سنسنی خیزی اورافواہوں کا بازار۔ کیا کچھ یہاں دیکھنے اور پڑھنے کو نہیں ملتا۔ کسی جمعہ خان نے شاہ رخ خان، عبدالودود نے وحید مراد اور خدا بخش نے سیف علی خان کے نام سے کھاتہ کھول رکھا ہے جبکہ آدم خان کترینہ کیف اورغلام سخی مادھوری بن کر ہر موضوع پہ تبصرے کرتا اور گالی گلوچ کرتا نظر آتا ہے۔
ہمارے کچھ دوستوں نے تو ان کو سائبر ٹارگٹ کلرز کا نام دے رکھا ہے جو نقاب اوڑھے اور اپنی شناخت چھپائے کسی تاریک گوشے میں کھڑا اس بات کا منتظر ہوتا ہے کہ کب آپ کا وہاں سے گذر ہو اور وہ طعن و تشنیع اور لفظوں کے تیر سے آپ کو چھلنی کردے۔ حالانکہ ہو سکتا ہے کہ حقیقی زندگی میں آپکے اس کے ساتھ اچھے مراسم ہوں اور کبھی کبھار ایک ہی دسترخوان پہ کھانا بھی کھاتے ہونگے لیکن پھر وہی بات کہ شایدانہیں اپنی بات برملا کہنے کی عادت نہیں ہوگی۔
ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو ترقی پزیر اور غیر مہذب معاشروں میں آزادیئ گفتار کی ذیادہ گنجائش ہوتی بھی نہیں۔ لہٰذا لوگ اپنے دل کی بھڑاس ایسے ہی نکالتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ایک عوامی گزرگاہ ہے جہاں سے ہر کوئی گذر سکتا ہے اور جہاں بلا اجازت داخلے کی بھی بہت گنجائش موجودہوتی ہے۔ کوئی بھی اس سے کسی معاشرے میں موجودخرابیوں اور کمزوریوں کا اندازہ لگا سکتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ غیر مہذب طرزِعمل سے نہ صرف دوسروں کو اپنی بات نہیں سمجھائی جاسکتی بلکہ اس سے انتشاراور نفرتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے جو پہلے ہی ہمارے ارد گرد وافر مقدار میں موجود ہیں۔