بسنت پر پابندی کے معاشی اثرات

پابندی سے جہاں ثقافت متاثر ہوئی وہیں ہزاروں افراد بھی بے روزگار ہوئے۔

 

 چارپائی پر لیٹے اور وقفے وقفے سے کھانستے اسلم 'والڈ سٹی' میں پتنگیں بنانے کی وجہ سے استاد اچھو کے نام سے مشہور ہیں۔ پچپن سالہ موری گیٹ کے رہائشی ٹی بی کے مرض سے چھٹکارہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں تاہم بھاٹی اور لوہاری گیٹ پر صرف اپنی روزی کمانے پر پولیس کی جانب سے دیے جانے والے زخم شاید کبھی بھی ختم نہ ہوپائیں۔

 حکومت نے بسنت پر 2005ء میں پابندی عائد کرتے ہوئے پتنگ بنانے کو جرم قرار دیا تھا تاہم اسلم اپنے چند دوستوں اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کی بالواسطہ سرپرستی کی وجہ سے وہ اپنا کاروبار جاری رکھ سکے۔

آنکھوں میں آنسوؤں کے ساتھ اچھو بتاتے ہیں کہ 'سلمان صاحب کی تدفین کے ایک، دو روز بعد انہوں نے مجھے اپنے گھر سے گھسیٹ کر باہر نکالا۔ ڈور کے ذریعے میری گردن کو پتنگوں سے باندھ دیا گیا اور مجھے ننگے پاؤں سڑک پر ٹہلایا گیا جیسے میں نے کوئی سنگین جرم کیا ہو'۔ اس واقعے کے چند روز بعد انہیں تیز بخار ہوگیا جسکے بعد انہیں بتایا گیا کہ انہیں ٹی بی کا مرض ہے۔

 برے وقت نے اچھو کا ساتھ یہاں نہ چھوڑا اور کچھ عرصے بعد انکی بیٹی بھی جلد ٹی بی کی بیماری میں مبتلا ہوگئیں۔ بیماری کی وجہ سے اسلم روزانہ کی بنیاد پر مزدوری کرنے سے بھی قاصر رہے۔

اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کی مالی مدد کی وجہ دونوں باپ، بیٹی اب اپنی بیماری سے صحت یاب ہورہے ہیں۔ اپنے جنون کے بارے میں بات کرتے ہوئے ابھی بھی انکی آنکھوں میں چمک پیدا ہوجاتی ہے چاہیں پھر بات کسی بھی طرح کی پتنگ کی کیوں نہ ہورہی ہو جیسے کہ کپ، سلارہ، تیرہ، گلہار، پانا یا شسترو۔

 بسنت پر پابندی سے نہ صرف لاہور کی ثقافت متاثر ہوئی ہے بلکہ اچھو جیسے ہزاروں افراد اپنے روزگار سے بھی محروم ہوگئے ہیں۔ اس کاروبار سے وابسطہ افراد کا مخصوص تخمینہ لگانا تو مشکل ہوگا تاہم اس بات کا اندازہ آرام سے لگایا جاسکتا ہے کے اس سے براہ راست اور بالواسطہ لاکھوں لوگ وابسطہ تھے جبکہ یہ اربوں روپے کا کاروبار تھا۔

 حتٰی کہ والڈ سٹی کی چھتیں بھی آمدنی پیدا کرتی تھیں۔ چھتوں کے کرائے جگہ اور پتنگ بازی کے معیار کے حساب سے طے ہوتی تھیں۔ مثلاً موچی، لوہاری، بھاٹی، ٹیکسالی، یاکی اور دیگر گیٹوں کی چھتیں پچاس ہزار سے ایک لاکھ کے فی رات کے حساب سے بک ہوتی تھیں جبکہ شاہ عالم کے کرائے اس کے مقابلے میں زیادہ ہوتے تھے جو ایک لاکھ سے چار لاکھ کے درمیان ہوتے تھے۔

اس کی وجہ یہاں پر بڑی چھتوں کی موجودگی اور ماہر پتنگ باز تھے۔ دوسری جانب ہیرہ منڈی کی چھت چوبیس گھنٹوں کے لیے سات لاکھ روپے تک میں کرائے پر دی جاتی تھی۔

 2005ء تک، جب بسنت پر پابندی لگائی گئی، پتنگ بنانا ایک گھریلو صنعت کا درجہ اختیار کرچکی تھی جس سے عورتوں اور بچوں سمیت ہزاروں افراد کا روز گار وابسطہ تھا۔ یہ صنعت موجودہ بجلی کے بحران کے باوجود ترقی کرتی رہتی کیوں کہ اس کا انحصار بجلی پر نہیں تھا۔

 ہزاروں عورتیں اور بچے پاکستان منٹ کے قریب شاہدرہ، باغبان پورہ، ساہوواری جورا پیر کالونی اور حضرت مادھو لال حسین کے مزار کے قریبی علاقوں میں اپنی روزی کمایہ کرتے تاہم پابندی کی وجہ سے وہ بیکار بیٹھے ہیں۔

 آل پاکستان کائٹ فلائنگ ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور لاہور میں بسنت تہوار کے بانیوں میں سے ایک خواجہ ندیم سعید کے مطابق، صرف پتنگ بنانے سے لاہور اور اس کے نواحی علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ جبکہ اس گجرانوالہ اور قصور میں ایک لاکھ اسی ہزار لوگ وابسطہ تھے جن کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ 'ہم نے حکومت پنجاب کو لاہور کی حدود سے باہر ایک 'کائٹ سٹی' بنانے کی تجویز دی ہے تاہم کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔ بسنت فیسٹیول سے پاکستان کی 'ساف امج' کو بھی فروغ ملتا ہے۔ حکومت نے اموات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کیبجائے تہوار پر بھی پابندی لگادی۔'

 والڈ سٹی خصوصاً موچی گیٹ کے تاجروں کیلیے بسنت سال بھر کیلئے روزگار کمانے کا ایک ذریعہ ہوا کرتا تھا۔ یہی معاملہ باغبانپورہ کی گڈی مارکیٹ اور اطراف کی دیگر مارکٹوں کے ساتھ ہوتا تھا۔ مجبوراً ان تاجروں کو ڈرائی فروٹ، کھلونے بیچ کر روزگار کمانا پڑرہا ہے۔

 تاہم بہت سے ہنر مند پتنگ کی ڈور بنانے والے اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔ تنی لگانے والے، تن پوش کرنے والے، ڈور لگانے والے اور چرخہ اور پنی لپیٹنے والے مزدور اپنے لیے باقاعدہ روزگار نہیں دھونڈ پارہے۔

 دی مال کے اہم ہوٹل کے ایک سینئر اہلکار یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ بسنت کے دوران لاہور کے کسی ہوٹل میں جکہ ملنا بھی مشکل ہوتا تھا۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں بڑے بڑے ہوٹلوں کی چھتیں بک کرواکر غیر ملکی سفیروں کو دعوت پر بلاتی تھیں۔ 'بسنت ایک خاص اہمیت رکھتی تھی اور شہر کا سب سے بڑا تہوار ہوا کرتا تھا جس میں اندرون اور بیرون ملک سے لوگ شہر کا رخ کیا کرتے تھے'

 ڈیوس روڈ پر ایک ٹور آپریٹر کا کہنا ہے کہ بسنت کی وجہ سے سیاحت کو بھی فروغ ملتا تھا۔ بڑی تعداد میں غیر ملکی بسنت سے لطف اندوز ہونے کے بعد مری اور شمالی علاقوں کا رخ کرتے تھے۔

 وحدت روڈ پر لوہاری، بھاٹی اور اچھرہ گیٹ پر بیکرز اور نان بائیوں نے بھی بسنت منانے پر بھرپور حمایت کی۔ ہوٹل انڈسٹری کی ہی طرح یہ لوگ بھی اپنی تہوار کے دوران آمدنی چھپاتے ہیں تاہم انکا کہنا ہے کہ یہ آمدنی کافی زیادہ ہوتی تھی۔

اچھرہ میں ایک نان بائی کا کہنا تھا کہ بسنت کے دوران انہیں سونے تک کا وقت نہیں ملتا تھا۔ دوسری جانب ڈرمرز، الیکٹریشنز، کھانے بنانے والے اور کیٹرنگ سے وابسطہ افراد کا کاروبار بھی پابندی سے متاثر ہوا۔

لکھاری: ظہیر محمود صدیقی