اب تک گزشتہ برسوں کے دروان لِیک ہونے والی اطلاعات یا پھر بیانات ہی تھے، جن کے باعث ہم یہ اندازہ کر سکتے تھے کہ در حقیقت کارگل میں کیا ہوا ہوگا:
کمزور منصوبہ بندی اور خراب طرح شروع کیا گیا ایک آپریشن، جس نے ہمارے سیکڑوں فوجیوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگادیا۔ یہ مجاہدین کی پیش قدمی نہیں تھی کہ جیسا کہ پہلے قوم کو بتایا گیا۔
اگرچہ کسی ایک شخص کے بیان سے عسکری تنازعے کی مکمل تصویر سامنے نہیں آسکتی تاہم جو نئے حقائق سامنے آئے ہیں، وہ پہلے کی طرح، اس جوئے کی سیاہ ترین تصویر پیش کرتے ہیں جو جنرل مشرف نے بطور آرمی چیف کھیلا تھا۔
لیکن جب آئی ایس آئی کے تجزیاتی شعبہ کے سربراہ یہ کہتے ہیں کہ آپریشن شروع ہوجانے کے بعد ان کے علم میں یہ بات آئی تھی تو ان کے یہ الفاظ فوراً کارگل کی داستان کا ایک اور پہلو بیان کرنا شروع کردیتے ہیں۔
یہ وہ سچ ہے جو زیادہ تر کور کمانڈرز اور سینئر فوجی حکام بشممول ملٹری آپریشن کے سربراہ بھی بیان کرتے رہے ہیں۔
اس معاملے میں نہ تو فوج کی سینئر قیادت کو اعتماد میں لیا گیا تھا اور نہ ہی دیگر مسلح افواج کو، جس کا یقینی نتیجہ یہی نکلنا تھا: موثر منصوبہ بندی کا فقدان، نامکمل لاجسٹک منصوبہ بندی اورہندوستانی ردِ عمل کے بارے میں ناقص اندازے۔۔۔
ان سب کے باعث ہمارے سیکڑوں فوجیوں کی زندگیاں داؤ پر لگیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بھی نقصان پہنچا اور اس کے بعد ملک کا سیاسی نظام تلپٹ ہوگیا۔
وہ لوگ جو باخبر تھے اور انہوں نے اس موضوع پر بولنے کا انتخاب کیا، ہم ان کے زریعے باہر آنے والی اندر کی حقیقتوں کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو عوامی سطح پر ایسا کوئی ریکاڑد دستیاب نہیں کہ جس سے کہ جان سکیں حقیقت میں کیا ہوا ہوگا۔
اطلاعات ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں اس موضوع پر کسی بھی قسم کے مباحثوں پر پابندی عائد کردی تھی، حالانکہ یونیورسٹی میں فوجی آپریشنز اور اس کی تجزیاتی مطالعوں پر مباحثے کیے جاتے ہیں۔
اب تک یہ بھی نہیں پتا چل سکا کہ کارگل کے آپریشن میں کتنے پاکستانی فوجیوں کی جانیں گئی تھیں۔ اس آپریشن کے مختلف پہلووں کے بارے میں، اُس وقت ذرائع ابلاغ میں آنے والی خبریں مبہم تھیں جن سے اشارہ ملتا تھا کہ کچھ چھپانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
ذرائع ابلاغ کو روزانہ دی جانے والی بریفنگ میں یہ بتایا جارہا تھا کہ جو کچھ ہورہا ہے، اس کے پیچھے مجاہدین اور ان کے تربیتی کیمپس ہیں۔ صحافیوں کو دھڑلے سے گمراہ کیا جارہا تھا اور ان اطلاعات کے ذریعے یقیناً عوام گمراہ ہورہی تھی۔
کارگل کے بارے میں سیاسی قیادت کے کردار سمیت متعدد سوالات اب بھی بدستور موجود ہیں۔ کیا وزیرِ اعظم نواز شریف اس منصوبے سے باخبر تھے؟
کیا انہوں نے ہی جنگ بندی کے لیے امریکا کی مدد چاہی تھی یا وہی اس سارے کیے کرائے کے ذمہ دار بھی تھے، جیسا کہ آپریشن کی ناکامی کے حوالے سے جنرل مشرف دعویٰ کرتے ہیں۔
ڈیڑھ دہائیاں گذر چکیں، اب یہ وقت با مقصد سچ بولنے، حقائق کے سرکاری تجزیے اور انہیں عوام کے سامنے لانے کا ہے۔
اگر جنرل ریٹائرڈ شاہد عزید اور دوسرے اس حوالے سے غلط بات کررہے ہیں تو پھر ان کی ضرور تصیح ہونی چاہیے، تاکہ مستقبل میں ان تمام غلطیوں سے بچا جاسکے جو اب تک ہم سے سرزد ہوچکی ہیں۔
سچ جاننا اس ملک کا حق ہے۔