پاکستان

کارگل کا ایڈونچر فورمین شو تھا: جنرل عزیز

کارگل کی خفت آمیز ناکامی کے گواہ، کچھ رازوں سے پردہ اُٹھاتے ہیں۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز جو پاکستانی فوج کے سابق چیف آف جنرل اسٹاف بھی ہیں، سن ننانوے کے موسم گرما کے دوران ہونے والے اپنے مشاہدات سامنے لارہے ہیں۔ وہ کارگل کی جنگ کو ایک المناک حادثہ قراردیتے ہیں۔ جس کی اصل حقیقت ملٹری کے کمانڈروں سے پوشیدہ رکھی گئی۔

یہ پہلا موقع ہے کہ ایک فوجی تنظیمی ڈھانچے میں ایک سینئر فوجی افسر نے کسی جھجک کے بغیر کارگل میں ہونے والی مضحکہ خیز شکست پر بات کی ہے۔

جنرل شاہد عزیز کے مطابق ابتداء میں کارگل آپریشن کے بارے میں صرف چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف،چیف آف آرمی اسٹاف لفٹیننٹ جنرل محمد عزیز ، فورس کمانڈ ناردرن ایریاز کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل جاوید حسن اور 10 کور کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل محمد احمد کو ہی علم تھا۔

کور کمانڈروں کی اکثریت اور پرنسپل اسٹاف آفیسرز کو اس بابت اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ جنرل عزیز کہتے ہیں کہ:‘‘یہاں تک کہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاءکو بہت بعد میں جا کر معلوم ہوسکا۔ ’’ جو اس وقت ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے آئی ایس آئی کے تجزیاتی ونگ میں خدمات انجام دے رہے تھے۔

انہوں نے بتایا  کہ جنرل مشرف اس پالیسی کے تحت کام کرتے تھے کہ جتنی ضرورت ہو اتنی معلومات فراہم کی جائے اور وہ بہت سی ضروری باتوں کو بھی متعلقہ افراد تک نہیں پہنچنے دیتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں مشرف محض احکامات جاری کیا کرتے تھے، بجائے اس کے کہ وہ کور کمانڈروں اور دیگر اعلیٰ سطح کے فوجی افسروں سے مشورہ کریں۔

کارگل کا آپریشن  1999ء کی گرمیوں میں شروع ہوا، جبکہ پاکستانی سپاہیوں نے لائن آف کنٹرول کی انڈین سائڈ پر دراندازی کی۔

اس دراندازی کے ذریعے انڈیا کی سپلائی لائن کو منقطع کردیا گیا، یہ سب نئی دہلی کے لیےبہت اچانک ہوا تھا۔

ابتدائی دنوں میں اسلام آباد نے دعویٰ کیا کہ یہ دراندازی مجاہدین کی جانب سے ہوئی ہے، لیکن وہ اس بناوٹی دعوے پر زیادہ عرصے تک قائم نہ رہ سکا۔ انڈیا کا ردّعمل اور عالمی دباؤ نے مشترکہ طور پر پاکستان پر زور ڈالا کہ وہ پاکستانی فوجیوں کو واپس بلوالے۔

اگرچہ اس آپریشن کے بعدا س کے مضمرات کی وجہ سے جنرل مشرف اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی  اپنی انتہا کو پہنچ گئی، اور اس کا نتیجہ اکتوبر کی بغاوت پر منتج ہوا، جبکہ فوج نے ایک منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

جنرل عزیز نے کہا‘‘اس آپریشن کی ذرا سی بھی پلاننگ نہیں کی گئی تھی۔’’

انہوں نے مزید کہا کہ ‘‘پاکستان آرمی نے یہ آپریشن پلان نہیں کیا تھا، کیوں کہ جنرل مشرف نے کبھی کارگل کو ایک بڑے آپریشن کے طور پر نہیں دیکھا تھا۔ ’’

ان کا کہنا تھا کہ یہ انڈین انٹیلی جنس کی بھی بہت بڑی ناکامی تھی۔ اس آپریشن کے حوالے سے مزید تفصیلات جنرل عزیز کی ایک کتاب میں موجود ہیں جو اگلے ہی ہفتے شایع ہوکر بک اسٹال پر آجائے گی۔

‘‘یہ نہایت غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔’’ ان سے جب آپریشن کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا۔ ان کا کہنا تھا کہ  ‘‘اس کے مقاصد واضح نہیں تھے اور اس کے نتائج و مضمرات کا درست طریقے سے اندازہ نہیں لگایا گیا تھا۔’’

دارالحکومت سے تیس کلومیٹر کے فاصلہ پر پنڈ بیگ وال میں اپنے فارم ہاؤس کے اندر  مری کی پہاڑیوں کے خوبصورت پس منظر کے ساتھ جنرل عزیز آپریشن کے بارے میں کھل کر بات کرتے ہوئے ان کے مزاج میں تلخی نہیں تھی۔

‘‘یہ ناکام مہم تھی، کیوں کہ ہم نے اس کے مقاصد اور نتائج اپنے لوگوں اور قوم سے چھپائے۔ اس کا کوئی مقصد نہیں تھا، نہ ہی اس کی کوئی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور آج کوئی نہیں جانتا کہ ہمارے کتنے سپاہیوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔’’

انہوں نے بتایا کہ وہ ذاتی طور پر نہیں جانتے کہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو  اس حوالے سے کس قدر آگاہی دی گئی، لیکن وہ محسوس کرتے ہیں کہ نواز شریف ‘‘اس منظر میں پوری طرح موجود نہیں تھے۔’’

تاہم ایک ڈسکشن کے دوران ایک جنرل کے جواب میں نوازشریف نے کہا تھا کہ ‘‘آپ ہمیں کب کشمیر دے رہے ہیں؟’’ جنرل عزیز نے کہا : ‘‘اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف مکمل طور پر اندھیرے میں نہیں تھے۔’’

‘‘ایک رکاوٹ نے مجھے پریشان کردیا تھا، میں نے سوچا کہ ہم نہیں جانتے کہ ہندوستانیوں کے ساتھ کیا ہوا ہے جو وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ میں نے دو افسروں کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ کھوج لگائیں کہ آخر ہو کیا رہا ہے۔  ’’

جنرل عزیز کو اگلے دن وائرلیس پیغام پکڑے جانے پر یقین آیا کہ انڈین کی تشویش  کی وجہ یہ حقیقت تھی کہ پاکستان کی جانب سے کسی نے کارگل۔درس سیکٹر پر قبضہ کرلیا ہے، لیکن یہ واضح نہیں تھا کہ یہ مجاہدین تھے یا باقاعدہ فوجی تھے۔

 ‘‘میں نے اس سارے معاملات کے لیے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل ضیاءالدین بٹ کو پکڑا اور پوچھا کہ آخر کیا ہورہا تھا؟ ’’

جنرل بٹ نے آخرکار بتایا کہ آرمی کارگل کے کچھ حصے پر قبضہ کرچکی ہے۔

جنرل عزیز نے کہا یہ درست نہیں تھا۔ ان کی اپنی رائے میں، وہ اسی صورت میں مجوزہ آپریشن کے بارے میں پہلے سے کچھ کہہ سکتے تھے، جبکہ انہیں پہلے سے اس کی جُزیات فراہم کی جاتیں۔

جنرل عزیز اور جنرل بٹ کے مابین ہونے والی اس گفتگو کے ایک دن بعد جنرل عزیز کو ایک لیٹر کے ذریعے مطلع کیا گیا کہ انہیں جی ایچ کیو میں کارگل کے حوالے سے ایک بریفنگ میں مدعو کیا گیا ہے۔

بریفنگ

اُس بریفنگ میں جہاں پرنسپل اسٹاف آفیسرز بھی موجود تھے، ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز لفٹیننٹ جنرل توقیر ضیاء نے واضح کیا کہ نادرن لائٹ انفنٹری اور ریگولر ٹروپس دراس کارگل سیکٹر پر قبضہ کرچکے ہیں۔

جنرل عزیز نے محسوس کیا کہ اگرچہ کہ آپریشن کے بارے میں تمام بریفنگ جنرل توقیر ضیاء نے دی ہے لیکن اس آپریشن کے ابتدائی معاملات کے حوالے سے وہ بھی کچھ نہیں جانتے تھے۔

توقیر ضیاء کی اس بریفنگ کے ایک دن گزرنے کے بعد کارگل آپریشن کی خبر پاکستانی میڈیا میں رپورٹ ہوگئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈین میڈیا اس حوالے سے ایک دن پہلے سے اس کی خبریں دے چکا تھا۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی حکام کو اس اہم فوجی آپریشن کے بارے میں اس کے شروع ہونے کے بعد آگاہ کیا گیا، جبکہ اس وقت تک اس کی معلومات میڈیا تک پہنچ چکی تھیں۔

بریفنگ کے دوران جنرل ضیاء نے آپریشن کے مقاصد واضح کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ انڈیا کی سیاچن کو جانے والی سپلائی لائنز کو منقطع کرنے کے لیے کیا گیا تھا، کیونکہ یہ زوجیلا پاس، سری نگر، دراس کارگل لیہہ روڈ کے قریب تھا۔

جنرل ضیاء کا کہناتھا کہ اس آپریشن سے سیاچن کو انڈیا کی سپلائی رُک جائے گی اور بالآخر انڈیا کو سیاچن خالی کرنا پڑے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا اور اب یہ سب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

جنرل عزیز کا کہنا تھا کہ ایسا اس لیے ہوا ، کیونکہ منصوبہ بندی کرنے والے ‘‘انڈیا کے ردّعمل اور مجموعی نتائج کا درست اندازہ نہیں لگاسکے ۔’’

بریفنگ کے وقت جنرل توقیر ضیاء نے پشتو زبان میں ایک پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام کونشر کیے جانے کے بارے میں بتایا تھا، انہیں امید تھی کہ اسے  انڈین فورسز پکڑ سکتی ہیںؕ۔

ان کا مقصد یہ تھا کہ اس وائرلیس پیغام کو نشر کرنے سے وہ انڈیا کو بے وقوف بنا کر یہ سوچنے پر مجبور کردیں گے کہ افغان مجاہدین نے کارگل کے علاقے پر قبضہ کرلیا ہے۔

جنرل عزیز نے کہا کہ انہوں نے اس منصوبے پر اعتراض کیا تھاکہ ‘‘یہ بہت جلد بے نقاب ہوجائے گا۔’’ انہوں نے مزید کہا کہ ایک طویل بحث کے بعد آخرکار توقیر ضیاء نے یہ تسلیم کرلیا کہ سچ کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جاسکتا۔

ماضی کے دریچوں کو کھولتے ہوئے جنرل ضیاء نے کہا کہ ‘‘اگر نادرن لائٹ انفنٹری کے جوان وہاں موجود تھے، تو بھی یہ غلط ہوسکتا تھا، اس لیے کہ تب یہی خیال کیا جاتا کہ یہ آپریشن پیراملٹری فورس کے تحت کیا کیا ہے، کیونکہ نادرن لائٹ انفنٹری (این ایل آئی) ملٹری کے ماتحت کام کرتی ہے، رینجرز کی طرح نہیں کہ جس کا سربراہ تو ملٹر ی آفیسر ہوتا ہے لیکن تیکنیکی بنیادوں پر وہ وزارت داخلہ کے ماتحت ہوتی ہے۔

جس پر کبھی غور نہیں کیا گیا

جنرل عزیز کے نزدیک آپریشن ختم ہوجانے سے مراد ہرگز یہ نہیں لی جائے گی کہ یہ معاملہ ختم ہوگیا ہے۔

اس کے بعد انہیں چیف آف جنرل اسٹاف کے عہدے پر ترقی دے دی گئی، انہوں نے بتایا کہ سال 2004ء میں انہوں نے محدود سطح کی اسٹڈی کا حکم دیا تاکہ یہ دریافت کیا جاسکے کہ آخر کون سے اندازے تھے جو غلط ثابت ہوئے۔

جوانوں اور سرمائے کا بہت بڑا نقصان تھا، انہوں نے ایک ایک بٹالین سے اس حوالے سے تفصیلات حاصل کیں۔لیکن ردّعمل انہیں فی الفور موصول ہوا۔

تند مزاج جنرل مشرف نے انہیں طلب کیا اور پوچھا کہ اس اسٹڈی کے کیا مقاصد ہیں؟

‘‘میں نے انہیں بتایا کہ یہ ہماری غلطیوں اور نقصانات کی ایک پیشہ ورانہ تفصیل فراہم کرے  گی۔ لیکن جنرل مشرف نے کہا فی الوقت اس طرح کی اسٹڈی کی کوئی ضرورت نہیں ہےاور انہوں نے اس کو روکنے کے احکامات جاری کردیے۔ ’’