جسے دیکھ کر ذہن میں یہ خیال بھی آسکتا ہے کہ شاید کراچی کو پیرس بنانے کے دعووں کے پورے ہونے کا وقت قریب ہے۔
ہمارے دوست نون کا کہنا ہے کہ کراچی کیا پاکستان کے بیشتر شہر پیرس سے بھی زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ہم نے یہ بات سنی تو نون کی طرف یوں دیکھا جیسے اس کے سر پر سینگ تلاش کررہے ہوں، لیکن نون نے ہماری نظروں کا اثرلیے بغیر نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا:
سترہویں صدی کے پیرس سے، جب پیرس کی گلیاں غلاظتوں سے اٹی رہتی تھیں۔
بحر حال! نجانے یہ کون صاحب ہیں جو گلستان جوہر کے پرفیوم چوک کی شہرت چہاردانگ عالم میں پہنچا دینا چاہتے ہیں۔ جس کے چند کلومیٹر کے فاصلے سے ہی شدید بدبو کے بھبھکے ناک کے راستے دماغ میں داخل ہو کر اسے منجمد کرنے لگتے ہیں۔
قوم کے ہمدردوں کا یہ عمل یعنی پرفیوم چوک سے متعارف کرانے کے لیے وال چاکنگ پچھلے دس پندرہ سالوں سے جاری ہے، لیکن پرفیوم چوک بھی اپنی مکمل حشر سامانیوں کے ساتھ اسی طرح بدبو کے بھبھکے کئی کلومیٹر دور تک ‘نشر ’ کررہا ہے۔
جب سرکاری اداروں کی جانب سے وال چاکنگ مٹانے کی مہم چلائی جاتی ہے یا اعلیٰ سطح کے کسی (نون اعلیٰ سطح کے بجائے گھٹیا سطح کہتا ہے) فرد کاوزٹ ہوتا ہے تو دیواروں پر لکھے نعرے اور اشتہارات تو مٹ جاتے ہیں لیکن اکثر جگہ ‘خوشبوئوں کا مرکز ، پرفیوم چوک’ پر سفیدی اس طرح پھیری جاتی ہے کہ بعد میں بھی وہ باآسانی پڑھا جا سکتا ہے۔
گلستان جوہر کے پرفیوم چوک پر ہی موقوف نہیں، کراچی شہر میں ایسی بہت سی دیواریں ہم نے دیکھی ہیں جن پر تحریر تھا ‘یہاں کچرا پھینکنا منع ہے ۔ پھینکنے والے پر جرمانہ کیا جائے گا’ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہی دیواروں کے سائے میں کوڑے کرکٹ کے پہاڑ بھی ہم نے ملاحظہ کیے۔
کراچی ہی نہیں ایسی دیواریں تو ملک کے کسی بھی شہر میں دیکھی جاسکتی ہیں، جن پر تحریر ہوتا ہے کہ
‘دیکھو گدھا پیشاب کررہا ہے’
اور انہی دیواروں کی طرف منہ کرکے بیٹھے ہوئے کئی لوگ بھی اکثر دیکھے جاسکتے ہیں۔
ایک مہنگے ترین پرائیویٹ اسکول کی دیوار پر اسکول کے نام اور مونو گرام سے ذرا اوپر تحریر تھا۔
یا اللہ میرے علم میں اضافہ فرما ۔
نون نے اسے دیکھنے کے بعد ہم سے کہا ‘دراصل اسکول کا مالک صرف اس علم میں اضافہ چاہتا ہے کہ اس کے بینک بیلنس میں کس قدر ماہانہ اضافہ ہو رہا ہے؟
ہم جب بذریعہ ٹرین پشاور گئے تو راستے بھر نظر آنے والی تمام دیواروں پر تحریر اشتہارات کو دیکھ کر یہی خیال آیا کہ ملک کے تمام اشتہاری حکیم یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ شاید ملک کی پوری آبادی بشمول خواتین، مردانہ امراض میں مبتلا ہے۔
بوجوہ ہمیں ایک ایسی مسجد میں جہاں ایک اقامتی مدرسہ بھی تھا، بیت الخلاء استعمال کرنے کی حاجت ایک مرتبہ پیش آئی۔ اس بیت الخلاء کی دیواریں بھی نعرے بازیوں سے محفوظ نہ رہ سکی تھیں۔ سپر پاورز کے حکمرانوں کے لیے ایسی ایسی دھمکیاں تحریر تھیں، گویا وہ حکمران اسی بیت الخلاء کو استعمال کرتے ہیں۔
ایک طالبعلم اپنے مخالف مسلک کے لیڈر کی والدہ محترمہ کے ساتھ کچھ غلط قسم کی رشتہ داری قائم کرنے کا خواستگار تھا، تو دوسرا اُس کی بہن کے ساتھ۔
جواب میں قبلہ موصوف کے کیا تاثرات تھے، اس کے بارے میں کہیں کچھ درج نہیں تھا۔
مدرسے کے بعض اساتذہ اور طالب علموں کی کچھ خصوصیات ایسے الفاظ میں تحریر تھیں جنہیں عرفِ عام میں گالیاں کہتے ہیں۔
یہیں پر ہمیں بعض مصوروں کے وہ فن پارے بھی دیکھنے کو ملے جو فنی اعتبار سے تو بھارتی مصور ایم ایف حسین کے شاہکار سے بھی اعلیٰ درجے کے معلوم ہوئے۔ ان فن پاروں میں بعض انسانی اعضاء کو ان کے تناسب سے کہیں زیادہ بڑا بنا کر دکھایا گیا تھا اور کہیں کہیں انہیں تھری ڈی انداز میں دکھانے کی کوشش کی گئی تھی۔
شاید یہ وہ طالبعلم رہے ہوں گے جو شبِ زفاف کے احکامات کا درس پڑھ رہے ہوں گے؟
سنا ہے کہ بعض مدرسوں میں اس کے پریکٹیکل کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے، کہیں حلالہ کی صورت میں تو کہیں کسی اور صورت میں۔
مذکورہ ڈایا گرام بھی ان کے سلیبس کا حصہ تھیں یا نہیں، اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔