نقطہ نظر

المناک خدشوں کا چوراہا

سب سے کمزور قوت اس لیے ناقابلِ شکست ہوتی ہے کیوں کہ یہ کمزور ہے۔


is blog ko sunne ke liye play ka button click karen | اس مضمون کو سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/75006593" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


سقوط ڈھاکہ کے چالیس سال بعد آج پھر ہم المناک خدشوں کے چوراہے پر کھڑے ہیں اور آج بھی ہم پنجاب کے خوشحال اور درمیانہ طبقے کے لوگ ہی ہیں جن کا مزاج سخت ہے۔

لگتا ہے جیسے ہم پنجاب کے درمیانہ طبقہ کے لوگ خود کو ہی پاکستان مانتے ہیں، جیسے باقی صوبے اور قومیتیں تو مسافر مہاجر ہیں، جنہیں ہم نے اپنے بھولے پن اور فراخدلی کی وجہ سے خیموں میں پناہ دے رکھی ہے۔ ہم شاید خود کو پورا اسلام یعنی سراپا اسلام بھی سمجھتے ہیں، جیسے ہم ہی اس کے وارث ہیں۔

گرچہ اپنی سچائی اور اچھائی کے دعوے بڑی شدّو مد اور بلند آواز سے کرنا مسلم اقوام میں عام ہے تاہم ہم پنجاب والے اور بھی نمایاں ہیں۔ ہماری اس کمزوری کے پیچھے بہت سے مضر عوامل چھپے ہیں لیکن یہاں صرف چند ایک کا ذکر مناسب ہے جو زیادہ اہم اور ماضی قریب کے ہیں۔

برطانیہ کے نوآبادیاتی دور سے ہی پنجاب کے لوگ افواج کا بڑا حصہ رہے ہیں۔ لہٰذا پاکستان بننے کے بعد جلد ہی ہمارے جرنیلوں نے قوم کی معاشی اور سیاسی قوت میں دخل دینا شروع کردیا اور اپنی قوت کی بنیادیں پھیلانے کے لیے انہوں نے نچلے افسروں کو چھوٹی موٹی مراعات کے دائرے میں لے لیا۔

دوسری طرف چونکہ سکھوں کے دورِ اقتدار میں مرکزی پنجاب کے اضلاع اقتدار کا مرکز ہونے کے ساتھ کاروباری مراکز بھی بن گئے تھے، چنانچہ خوشحال اور طاقتور تھے۔ جب انیس سو سینتالیس میں ہندو اور سکھ یہاں سے چلے گئے تو سب کچھ موجودہ کاروباری طبقے کے ہاتھ لگا اور یوں طاقت اور دولت ان ہی اضلاع کے پاس رہ گئی۔

پنجاب کے ان اضلاع کے افراد برطانوی ہند کی سول سروس میں بھی شامل ہوئے تھے اور تحریک پاکستان کے اردو بولنے والے سرکردہ لوگوں کے ساتھ اقتدار میں شریک تھے۔ جب بانیٔ پاکستان نے اردو کو واحد قومی زبان بنانے کا مہلک فیصلہ کیا تو اس پر ہمارے پنجابی پڑھے لکھے لوگ خود اردو بولنے والوں سے بڑھ کر خوش ہوئے اور بعد کے برسوں میں جب مشرقی پاکستان میں اس فیصلے پر احتجاج ہوا تو ہم ناراضگی میں بھی ان سے آگے تھے۔

برصغیر کے مسلمانوں کا تعلیمی معیار انگریز کے دور میں بالعموم نیچے تھا، مگر پنجابی مسلمانوں کا تو اور بھی افسوسناک تھا، خصوصاً کاروباری طبقہ اور افواج کے لوگوں کو علمی اور فکری سرگرمیاں محض بےکار کے مشاغل لگتی تھیں۔ دولت فضل ربّی سے آئی تھی، خوداعتمادی تحریک پاکستان کی کامیابی سے حاصل ہوئی تھی اور جارحانہ رویّے بطور مسلمان ہمارے لہو میں تھے، پھر ہمیں کیا کمی تھی کہ علمی فکری اُلجھنوں میں پڑتے۔

جب بھی ہماری چھوٹی اور کمزور قومیتوں نے ہم سے اختلاف یا احتجاج کیا ہے، تو حقارت سے جھٹک دینا ہمارا فطری رویّہ رہا ہے۔ ہم اپنے قومی رنگوں کا یعنی اپنے تنوع کا مذاق اُڑاتے رہے ہیں۔ مثلاً بنگالی کالے، چھوٹے بے وفا اور چکر بازہیں، سندھی کاہل نفرت بھرے مفت خورے ہیں جو ہماری محنت کا پھل کھارہے ہیں، بلوچ میلے کچیلے، سست جاہل جنگلی ہیں جنہیں ہم نجانے کیوں پال رہے ہیں، اور پٹھان؟ یہ مزاحیہ ہم جنس پرست ہیں جو ہماری خوبیوں سے حسد کرتے ہیں۔ اس طرح کے رویّوں سے ہم مسلسل اپنے اس دعوے کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ ہر وہ بات جو اچھی ہے جو صحیح ہے، وہ صرف ہم میں ہیں۔

انیس سو اکہتّر میں ہم نے ندامت اور تذلیل کے ساتھ اپنا وہ حصہ کھودیا جو ہماری قومی شناخت کا بیان تھا اور آج تک ہم نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ بنگلہ پاکستانی ہم سے بڑھ کر پاکستان کی پہچان تھے۔

ہم نے اپنی فوج کے ساتھ ہونے والے غیرقانونی اور غیر اخلاقی قتل عام کی حمایت کی، جو کہ اس لیے غیر قانونی تھا کہ یہ ایک غیر قانونی حکومت کے حکم سے ہورہا تھا اور اس لیے غیر اخلاقی کہ یہ منتخب اکثریت پر حملہ تھا۔ ہم نے ندامت سے سرجھکانے کی بجائے اپنے احساسِ جرم کو خارج کردیا، یعنی اپنی رسوائی کا الزام ہندوستان اور عالمی قوتوں پر ڈال کر خود کو ہلکا کرلیا۔ آج پھر ہم ویسے ہی چوراہے پر ہیں اور اب ہمارا اندرونی خلفشار اور عالمی سطح پر ہماری تنہائی کہیں بڑھ کر ہے۔

اگر آج ہم اپنی شناخت اور اپنے وجود کی اکائیوں کی خواہشیں مان لیں تو ہم اپنی شناخت اور شان کا ایک ذرّہ بھی نہیں گنوائیں گے۔ پنجاب، سندھ اور پختونخوا کے وجود سے جتنے بھی صوبے بن جائیں، وہ پھر بھی پاکستان ہی رہیں گےاورایک حقیقی طور پر خودمختار صوبہ بلوچستان چاہے جتنے مزاج دکھائے، کہیں چلا نہیں جائے گا۔

اگر ہم بلوچ قوم پرستوں کی برہمی کو جائز مان کر انکسار کے ساتھ بات کرنے بیٹھ جائیں، اگر ہم بلوچوں پر الزام ڈالنے کی بجائے ان حقیقی پاکستان دشمنوں سے جنگ کریں جو ہمارے محبت کے قابل پُرامن ہزارہ عوام کی نسل کشی کر رہے ہیں، اگر ہمارے جرنیل کبھی ایک بار احساس کرلیں کہ دنیا کو وہ نہیں چلاتے اور اچھا نہیں چلاتے، تو ہم بلوچوں کا وہ شان والا دل پھر سے جیت سکتے ہیں جس میں ہم نے نواب اکبر خان کو قتل کرکے خنجر اُتارا تھا۔

جب ہم اپنی اکائیوں کو بھدّے جبر سے یکجا رکھتے ہیں تو ہم تنوع اور اتحاد کے اصول بھلا دیتے ہیں۔ ہم بار بار ہارے ہیں، پھر بھی زور زبردستی کی نفسیات ہمیں تخلیق ہستی کی حکمت کو دیکھنے سمجھنے نہیں دیتی۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ہم اس حکمت کو پہچانیں اور اپنے حالات  پر اُسے لاگو کریں۔

ہم مانتے ہیں کہ اپنی تخلیق سے پہلے کائنات ایک نقطۂ ارتکاز میں سمٹی ہوئی تھی ایک اتحادِ کامل، ایک ناقابلِ فہم نکتہ۔ کوئی نہ تھا جس سے اس کا رابطہ ہو۔ اس لیے یہ کائنات ایک دھماکے کے ساتھ ان گنت ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ تب رابطوں کا آغاز ہوا کیوں کہ رابطوں کے لیے کسی اور کا ہونا ضروری ہے۔ رنگ برنگ اکائیاں نہ ہوں تو رابطہ بے معنی رابطہ ہو، رنگ بہ رنگ اکائیوں کا وجود بے معنی۔

جب رابطہ اور ترسیل کا عمل شروع ہوا تب بکھرے ہوئے ٹکڑے جڑنے لگے۔ جڑنے کے معنی ایک ہونا نہیں۔ اتحاد وحدت نہیں، حالت متحدہ، حالت واحدہ نہیں۔ ون یونٹ ایک مہمل بیان ہے۔ تخلیقی صلاحیت اتحاد میں ہے، وحدت میں نہیں۔ کہکشاؤں اور نظاموں کا حسن ان کے تنوع میں ہے، جسے باہمی کشش یعنی کششِ ثقل ملاتی ہے۔ یہ سب سے کمزور قوت اس لیے ناقابلِ شکست ہے کیوں کہ یہ کمزور ہے، کچا دھاگہ ہے۔ جبر ایسے رشتے قائم کرتا ہے جو اکائیوں کو کچل دیتے ہیں، حتّٰی کہ پھر وہ لڑیں یا مریں کی صورت اُبھرتی ہیں۔

دنیا کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں، جس میں جبر کا کوئی عمل دخل نہیں۔ صرف تنوع اور باہمی ضرورت ہی قوموں اور علاقائی اتحادوں کو بنارہی ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم ابھی تک اس سچائی کو نہیں مانتے.


  پروفیسر مبارک حیدر پاکستان کے مایہ ناز دانشور ہیں. ان کی کتابیں "تہذیبی نرگسیت" اور "مبالغے، مغالطے" اردو نان-فکشن       میں جدید فکر کی نئی شروعات سمجھی جاتی ہیں.

مبارک حیدر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔