پاکستان

معاشی خودکفالت، خواتین کے مسائل کا حل

خواتین پر ظلم و تشدد کے خاتمے کا راستہ خواتین کی معاشی خود کفالت میں پوشیدہ ہے۔

 نو جنوری دو ہزار تیرہ کو جاری کی جانے والی عالمی نیوز ایجنسی رائٹرز کی ایک رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جیسے جیسے خواتین میں تعلیم اور شعور بڑھ رہا ہے اور وہ معاشی طور پر خود کفیل ہورہی ہیں، ان کے اندر اپنے حقوق سے متعلق آگہی کے رجحان میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

 رائٹرز نے اس خوش آئند رجحان کا اندازہ اس اَمر سے لگایا ہے کہ آج پاکستانی معاشرے کی خواتین شادی کے بعد چُپ چاپ ہر طرح کے ظلم وستم سہنے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھانے اور جبر کے رشتے کو ختم کرکے ظلم کا راستہ روکنے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہیں یہ ہمت ان کی معاشی خود کفالت کی وجہ سے ملی ہے۔

 پاکستان میں تعلیم کی کمی اور تنگ نظری پر مبنی رویوں اور معاشرتی دباؤ کی وجہ سے طلاق کو ہمیشہ سے انتہائی بُرا سمجھا جاتا رہا ہے، تاہم ملازمتوں اور مختلف پروفیشن میں بڑھتا ہوا خواتین کا کردار اور اپنے حقوق کے حوالے سے پیدا ہونے والی شعوری استعداد  اس سلسلے میں نئی منزلوں کا پتہ دے رہی ہے۔

 یہ بات درست ہے کہ ابھی ایسی باہمت خواتین کی تعداد بہت کم ہے جو گھریلو تشدد سے بچنے کے لیے علیحدگی کا فیصلہ کررہی ہیں، مگر اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر خواتین اسی طرح معاشی خود کفالت کی جانب اپنے قدم بڑھاتی رہیں تو اپنے حقوق کے حصول کے لیے ان کی جدوجہد معاشرے میں ایک بڑی تبدیلی کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

 رپورٹ میں اسلام آباد آربیٹریشن کونسل کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سترہ لاکھ آبادی کے شہر اسلام آباد میں دوہزار گیارہ کے دوران پانچ سو ستاون جوڑوں نے علیحدگی اختیار کی جبکہ سال دوہزاردو میں یہ تعداد صرف دو سو آٹھ تھی۔ اس حوالے سے پاکستانی حکومت کے پاس قومی سطح کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

 پاکستان کے بیشتر علاقوں میں ایسی جرأت مندی کا مظاہرہ کرنے والی خواتین کو بہت سے خوفناک قسم کے ردّعمل کا سامنا بھی کرنا پڑجاتا ہے، اکثر خُلع کی درخواست دینے والی خواتین کو کبھی وکیلوں کے دفاتر، کبھی عدالت سے گھر کے راستے پر یا پھر کبھی گھر میں ہی قتل کر دینے جیسے المناک واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔

 رائٹرز کے صحافی نے جب اسلام آباد کی رہائشی رابعہ سے گفتگو کی تو چھبیس برس کی رابعہ نے بتایا کہ ’جب خواتین ملازمت یا گھریلو کاروبار کے ذریعے معقول یا مناسب آمدنی حاصل کرنے لگتی ہیں تو پھر اپنے شریک حیات سے پُرخلوص محبت اور بے لوث اپنائیت کی ہی طلبگار ہوتی ہیں۔ لیکن اگر وہ اس کے بجائے طنز اور طعنوں سے زندگی اجیرن کردے، نفسیاتی اور جسمانی طور پر تشدد کا نشانہ بنائے تو اپنے پیروں پر کھڑی یہ خواتین انہیں چھوڑنے کا فیصلہ کرسکتی ہیں۔ ‘

 اب ہم اس صورتحال کے ایک دوسرے پہلو پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کی ایک بہت بڑی اکثریت اپنی تعلیم اور صلاحیتوں کو اپنی اور ملکی ترقی کے لیے استعمال نہیں کر پاتی ہیں۔

 ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی یونیورسٹی میں طالبات کی تعداد لگ بھگ ستّر فیصد تک جا پہنچی ہے۔ یعنی اس اندازے کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر میل اسٹوڈنٹ کی تعداد صرف تیس فیصد ہی تسلیم کی جائے گی۔

 یقیناً ملک کی خواتین میں حصول ِتعلیم کا رُجحان بے حد خوش آئند ہے۔ ایسے گھرانے جہاں لڑکیوں کو پانچویں جماعت یا پھر آٹھویں جماعت سے آگے پڑھانے کو بہت معیوب یا خلافِ مذہب سمجھا جاتا تھا، آج ان گھرانوں کی لڑکیاں بھی پروفیشنل اداروں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔

 لیکن اس کے باوجود اُن ستّر فیصد طالبات میں سے اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیم سے ملک و قوم کو تو چھوڑیں خود اپنے لیے بھی کوئی فائدہ نہیں حاصل کر پا رہی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد ہے جنہوں نے پروفیشنل تعلیم حاصل کر رکھی ہے، مثلاً ایم بی بی ایس کررکھا ہے، لیکن ڈاکٹر بننے کے بعد پریکٹس نہیں کررہی ہیں، یا تو ان کی شادیاں ہوگئیں اور سسرال والوں نے جاب کرنے یا کلینک کھولنے کی اجازت نہیں دی، یا پھر گھر سے ایم بی بی ایس کے بعد ہاؤس جاب تک کی اجازت نہ مل سکی۔

 میں ایسی بہت سی خواتین کو جانتا ہوں جو ایم ایس سی ہیں، ایم فل ہیں، ایم بی بی ایس ہیں اور یہاں تک کہ بی ای انجینئرز کی ڈگری لے چکی ہیں، لیکن اپنے گھر میں پراٹھے پکارہی ہیں یا پھر سسرال میں انڈے تل رہی ہیں، بھانڈے برتن دھورہی ہیں اور بچے پال رہی ہیں۔

 ملک کے دوسرے شہروں کی یونیورسٹیز میں طلباء وطالبات کا تناسب کیا ہے، اس کے درست اعداد وشمار تو موجود نہیں ہیں، لیکن عمومی رجحان کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاہور، اسلام آباد، فیصل آباد میں موجودہ صورتحال آج سے بیس سال قبل کی صورتحال سے یقیناً مختلف ہوگی۔ کراچی جیسا تناسب نہ بھی ہو تو وہاں چالیس فیصد سے پچاس فیصد کا تناسب بھی بہت بڑی تبدیلی مانی جائے گی۔

 رائٹرز کی رپورٹ بلاشبہ خوش آئند ہے، لیکن مجموعی صورتحال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسے گھرانوں کی اکثریت ہے جہاں کفالت کی ذمہ داری مرد پر ہی عائد ہے اور  بہت سے گھرانوں میں آئندہ برسوں میں بھی اس صورتحال کےبرقرار رہنے کا امکان ہے تو ایک سوال یہاں یہ بھی پیدا ہورہا ہے کہ اگر مرد آئندہ برسوں میں تعلیم میں اسی طرح پیچھے ہوتے رہے اور خواتین کی اکثریت اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بھانڈے ہی دھوتی رہیں تو معاشرے کا معاشی نظام کس کے بل بوتے پر قائم ہوسکے گا۔

 آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ آج خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو حصولِ تعلیم کی اجازت اس لیے مل سکی ہے کہ ان کی اچھی جگہ شادی ہو جائے۔ یعنی بنیادی مقصد شادی ہے اور جب شادی ہی زندگی کا مقصد ہے تو لڑکیوں کو پروفیشنل تعلیم دلوانے اور یونیورسٹیز میں ایڈمیشن کی کیا ضرورت ہے؟

 کیا اس طرح ان لڑکوں کا حق نہیں مارا جارہا ہے جو کم پرسنٹیج کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور انہیں یونیورسٹیز، میڈیکل و انجینئرنگ کالجز میں داخلہ نہیں ملتا اور ان کی جگہ طالبات کو ایڈمیشن مل جاتا ہے؟

 میرے خیال میں خواتین کو میدانِ عمل میں قدم رکھنے سے روکنے والی سوچ کے پس پردہ جہاں اور بہت سے عوامل کام کررہے ہیں وہاں ایک اہم اور شاید بنیادی سوچ یہ کارفرما ہے کہ خواتین جب معاشی جدوجہد میں حصہ لیں گی تو اولاد کی اچھی تربیت نہیں ہوسکے گی، یعنی اولاد خراب ہوجائے گی۔

 اب مجھے ایمانداری کے ساتھ جواب دیجیے کہ لیڈی ڈاکٹر کی اولاد زیادہ تر ڈاکٹر ہی ہوتی ہے یا نہیں؟

 کسی کالج کی پروفیسر یا پرنسپل یا پھر اسکول ٹیچر کی اولادیں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتی ہیں یانہیں؟

 میں نے تو ہر اُس خاتون کی اولاد کو جو محنت کرکے اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے اچھی زندگی گزارنے کا سامان بہم پہنچارہی ہے، ہمیشہ ترقی ہی کرتے دیکھا ہے۔

 معاشی جدوجہد میں شریک اکثر خواتین کی اولادیں ڈسپلن کی عادی ہوتی ہیں، جبکہ بہت سی گھریلو خواتین کی تربیت ان کی اولاد کو خود سر، پھوہڑ، نالائق، اُجڈ اور یہاں تک کہ غنڈے اور بدمعاش بنارہی ہے۔

 اکثر گھریلو خواتین نالائق، پھوہڑ، کم عقل اور سُست ہوتی ہیں، معاشی جدوجہد میں شریک خواتین کے برعکس رات کے علاوہ دن میں دو سے ڈھائی گھنٹے سونا ایسی خواتین کا معمول ہوتا ہے۔

 نالائق اور کم عقل ماؤں کی تربیت سے اچھی نسل تیار ہوگی یا لائق اور باشعور ماؤں کی تربیت سے؟

 تعلیم حاصل کرنا مرد و عورت کا حق ہے اور بحیثیت انسان شعوری ارتقاء کی رفتار کا ساتھ دینا بھی مرد و عورت دونوں کا فرض بنتا ہے،لیکن ہمارے معاشرے میں عورت کو عضو معطل بنا کر رکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند ہی لوگوں نے نہایت سنجیدگی سے اپنا فرض سمجھتے ہوئے تبدیلی کو قبول کیا ہے۔

 موجودہ حالات میں ہی نہیں فطرت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ عورتوں کو اپنی زندگی کے معاشی اور سماجی فیصلوں کا مکمل اختیار حاصل ہونا چاہیئے۔

 یہاں یہ سوال بھی اُٹھایا جائے گا کہ اگر عورت معاشی جدوجہد میں حصہ لیتی ہے تو پھر اس کا زیادہ استحصال ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ خدشات مکمل طور پر درست تسلیم کیے جاسکتے ہیں، اس لیے کہ اگر کسی ایک یا ایک سے زیادہ جگہ ایسی منفی صورتحال موجود ہے تو اُسے پورے معاشرے پر بھی لاگو کرکے دیکھا جانا غلط ہوگا۔

 میرا خیال ہے کہ ہمارے شہری معاشرے میں ماؤں کی تین اقسام ہیں۔ ایک وہ مائیں جو ملازمت کررہی ہیں مگر اُنہوں نے اپنی ملازمت کو یا اپنے کیرئیر کو بہت زیادہ اپنے اوپر سوار کرلیا ہے تو ظاہر ہے ان کے گھر کا نظام ڈسٹرب ہوتا ہوگا۔ دوسری وہ مائیں جنہوں نے اپنے گھر کو بہت زیادہ اپنے دماغ پر سوار کرلیا ہے تو پھر وہ اپنی ملازمت کی ذمہ داریوں کو صحیح طرح نہیں نبھا پاتیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو ملازمت اور گھریلو دونوں قسم کی ذمہ داریاں اچھی طرح  نبھا رہی ہیں اور انہوں نے گھر اور ملازمت دونوں میں توازن قائم کر رکھا ہے۔

 حقیقت یہی ہے کہ زیادہ تر ملازمت پیشہ مائیں اپنی دونوں ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہیں۔ ملازمت پیشہ ماؤں کے اندر وقت کو صحیح تقسیم کرنے کی خوبی ہوتی ہے۔

 وہ وقت کا ضیاع نہیں کرتیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے دونوں جگہ وقت دینا ہے تو وہ اپنے وقت کو صحیح طرح خرچ کرنے کے لیے پلاننگ کرتی ہیں۔

 ملازمت پیشہ مائیں ہی بہترین مائیں ہوتی ہیں اور وہ گھریلو ماؤں کی نسبت اپنی اولاد کی کہیں زیادہ بہتر تربیت کرتی ہیں۔ آپ خود ایمانداری کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھ لیجیئے۔ اگر آپ کسی قسم کی طرز فکر کی عینک لگائے بغیر غیر جانبدار ہوکر دیکھیں گے تو آپ کو انداز ہ ہوگا کہ گھریلو مائیں زیادہ سہل پسند اور آرام طلب ہوتی ہیں۔ ان کے اندر وقت کی قدر کم ہوتی ہے، یا پھر ہوتی ہی نہیں۔ اکثر تو گھر میں زیادہ وقت سو کر گزارتی ہیں یا ٹی وی ڈرامے دیکھ کر وقت پاس کرتی ہیں۔ جبکہ ملازمت پیشہ ماؤں کے پاس ان کاموں کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا۔ ان ماؤں کے اندر ڈسپلن زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ان کے بچوں کی زندگی بہت ’منظم‘ ہوتی ہے۔ ان کے بچے بہت ذمہ دار اور وقت کے پابند ہوتے ہیں۔  ان کے اندر خود انحصاری کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ ایسی گھریلو مائیں جن میں سے اکثر تو اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتی ہیں، کا اپنے بچوں سے بات کرنے کا انداز ہی اکثر غیر مہذبانہ اور احمقانہ ہوتا ہے۔ گھریلو ماؤں کے موضوعات زیادہ تر گھریلو سیاست پر مبنی ہوتے ہیں۔ اُن کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ بچوں کے سامنے کیا باتیں کرنی چاہئیں اور کیا نہیں۔ وہ بچوں کے سامنے بلا جھجک اپنے سسرال کے لوگوں کی برائیاں کرتی رہتی ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کے بچے کم عمری سے ہی گھریلو سیاست میں ملوث ہوجاتے ہیں۔

 معاشی جدوجہد میں شریک خواتین کے پاس چونکہ ان خاندانی بکھیڑوں میں پڑنے کے لیے وقت ہی نہیں ہوتا، اس لیے وہ عموماً اپنے بچوں کو بھی اس سے دور ہی رکھتی ہیں۔

 آج جب کہ خواتین ہمارے ملک کی آبادی کا پچاس فیصد حصہ ہیں۔ اگر کسی بھی ملک کی پچاس فیصد آبادی کو محض گھر تک محدود کردیا جائے تو وہ ملک کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر ملک کی پچاس فیصد آبادی یعنی خواتین تعلیم حاصل کرکے اپنے لیے کسی پروفیشن کا انتخاب کرلیں تو یقیناً اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔

 یہ بھی ہم سب کے مشاہدے میں ہے کہ ملازمت پیشہ مائیں اپنی ملازمت کی ذمّہ داریوں کے ساتھ اپنے گھر، اولاد اور رشتہ داریوں کی ذمہ داریاں بھی احسن طریقہ سے سنبھالتی ہیں۔ ان کا ذہن دل و دماغ بہت وسیع ہوتا ہے۔ صبرو استقامت اور حسنِ سلوک کا مادّہ ان کے اندر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی مائیں بہت حوصلہ مند ہوتی ہیں۔

 یہ درست ہے کہ ایسی ملازمت پیشہ خواتین جن کے ملازمت کے اوقات زیادہ ہیں وہ اپنے بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتیں مگر ان خواتین کے بچوں کے اندر خودانحصاری اور ذمّہ داری کا جذبہ ان خواتین کی اولادوں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جو سارا دن گھر پر رہتی ہیں۔ ملازمت کرنے والی خواتین کی اولادیں چھوٹے چھوٹے کاموں میں گھر والوں پر انحصار نہیں کرتیں۔

 یہ مڈل کلاس کے ماضی پرستوں کا پھیلایا ہوا سراسر گمراہ کن پروپیگنڈہ ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین اچھی مائیں نہیں ہوتی ہیں اور وہ اپنے بچوں کا صحیح طرح خیال نہیں رکھتیں ۔

 یہاں سب سے پہلے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا ملازمت کرنے سے ماں کے اندر سے ’ممتا‘ کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے؟

 میرا خیال ہے کہ ماں تو ہرحال میں ماں ہے۔

 لیکن جیسا کہ ظاہر ہے ملازمت پیشہ ماں زیادہ منظم اور ایثار پیشہ ہوتی ہے کیونکہ وہ دُہری ذمہ داریاں نبھاتی ہے، گھر کی بھی اور ملازمت کی بھی۔ وہ جانتی ہے کہ وہ اپنا زیادہ وقت ملازمت کو دے رہی ہے تو پھر وہ اپنے اوپر جبر کرتی ہے اور اپنے لیے مخصوص وقت بھی اولاد کے اوپر صرف کرتی ہے۔ وہ بہت حساس ماں ہوتی ہے۔ اُسے یہ فکر لگی رہتی ہے کہ کہیں اُس کی اولاد احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوجائے۔ اس لیے وہ اولاد پر زیادہ توجہ دینے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ باہر لوگوں سے ملتی ہے تو پھر اس کو باہر کی دنیا کے بارے میں ہر طرح کی معلومات ہوتی ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو زمانے کی اونچ نیچ کے بارے میں آگاہ کرتی رہتی ہے۔ وہ اپنے اولاد کے بہتر مستقبل کی خواہاں بن جاتی ہے۔ وہ ماں ہونے کے ساتھ ساتھ اولاد کی اُستاد بھی بن جاتی ہے۔

 دیکھنے میں آیا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین کے بچے گھریلو خواتین کے بچوں سے کہیں زیادہ ذمّہ دار اور بہت تمیزدار ہوتے ہیں، جبکہ اکثر گھریلو مائیں تو از خود اپنی تربیت سے اپنے بچوں کو غیر ذمہ دار اور بدتمیز بنا دیتی ہیں۔

 ملازمت پیشہ خواتین کے بچوں کے اندر خودانحصاری کا جذبہ گھریلو ماؤں کے بچوں کی نسبت بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کے اندر اپنا کام خود کرنے کی عادت ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ ہر کام کے لیے گھریلو خواتین کے بچوں کی طرح اپنی ماں کا سہارا لینے کے شروع ہی سے عادی نہیں ہوتے۔

 عموماً ملازمت پیشہ مائیں اپنے گھر اور باہر کے تجربات سے نئی بات سیکھتی ہیں تو پھر وہ اپنی اولاد کو بھی گائیڈ کرتی رہتی ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم یافتہ دیکھنے کی خواہشمند ہوتی ہیں۔

 ملازمت پیشہ مائیں اپنے بچوں کے معاملے میں بہت حساس ہوجاتی ہیں اور انہیں زیادہ توجہ دینے کی کوشش کرتی ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین کو اپنے حقوق کا ادراک ہوتا ہے اس لیے جبر اور دھونس کے ذریعے ان کو ان کے جائز حق سے محروم کرنا آسان نہیں ہوتا۔

 انسانی حقوق کے ایک ادارے عورت فاؤنڈیشن کا حوالہ دیتے ہوئے رائٹرز کا کہنا ہے کہ  سال دوہزاربارہ میں ملک میں غیرت کے نام پر قتل کے سولہ سو چھتیس واقعات ریکارڈ ہوئے۔  پاکستان میں کسی لڑکی یا عورت کو قتل کرنے کے لیے محض یہ الزام بھی کافی سمجھا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے خاندان کی عزت میں کمی آئی۔ تاہم عورت فاؤنڈیشن  کا بھی یہی کہنا ہے کہ جیسے جیسے ملکی خواتین کو ملازمتوں کے مواقع حاصل ہو رہے ہیں، گھریلو تشدد کے خلاف ان کے عزم میں مضبوطی اور ارادوں کو ہمت ملتی جا رہی ہے۔ معاشی طور پر آزادی ملنے کے ساتھ ساتھ خواتین کی مجموعی حالت میں بھی بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔

پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس کا کہنا ہے کہ برسرروزگار خواتین کی تعداد گزشتہ ایک دہائی کے دوران چھپن لاکھ نوے ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ اکیس لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔

 ملازمت پیشہ خواتین ناصرف اچھی مائیں ثابت ہوتی ہیں بلکہ وہ اپنی معاشی خود کفالت کی بدولت اپنے حقوق کے لیے بلاجھجک آواز بھی اُٹھا سکتی ہیں، اگر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی نوجوان لڑکیاں کل اپنے اپنے پروفیشن کو اپنی معاشی خود کفالت کے لیے اپناتی ہیں اور عملی میدان میں قدم رکھتی ہیں تو معاشرے میں تبدیلی کا عمل کئی زاویوں سے اثرانداز ہوگا، ناصرف یہ کہ ایسی خواتین ملک میں عورتوں کے ساتھ جاری عدم مساوات اور تشدد آمیز رویوں کے بتدریج خاتمے کا سبب بنیں گی، بلکہ اگلی نسل کی اچھی تربیت بھی کرسکیں گی، ساتھ ہی ساتھ عملی میدان میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرکے ملکی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کریں گی۔