نقطہ نظر

برتری کا خبط

فخر اور نرگسیت کے لیے کم علمی لازمی شرط ہے، یوں کہا جاسکتا ہے کہ عالم کے لیے انکسار اتنا ہی فطری ہے جتنا بچے کے لیے فخر۔


is blog ko sunne ke liye play ka button click karen | اس مضمون کو سننے کے لئے پلے کا بٹن کلک کریں [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/73730436" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]


آج کی دنیا میں درمیانہ طبقہ ہر معاشرہ کی ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے اور ہر قوم کے درمیانہ طبقہ کی کچھ منفرد خصوصیات ہوتی ہیں۔ ہمارا درمیانہ طبقہ بھی بعض خصوصیات کے اعتبار سے دنیا بھر میں نمایاں ہے، جن میں کچھ مزاحیہ اور باقی المناک کے زُمرہ میں آتی ہیں۔

فخر ہمارے درمیانے طبقے کا بنیادی رنگ ہے جس کے لیے ہم کارکردگی کا ہونا ضروری نہیں سمجھتے لہٰذا بعض اوقات ہم اس پر بھی دنیا سے داد وصول کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں چار موسم آتے ہیں، ایک جوشیلے نوجوان نے تو مجھے میری منفی سوچ پر شرمندہ کرتے ہوئے یہ قابل فخر بات بتائی کہ ہمارے وطن میں پہاڑ ہیں اور بارش بھی ہوتی ہے، جس سے ہرطرف اُڑتی ہوئی گرد بیٹھ جاتی ہے۔

یہ معصومیت اس تحریک کا ثمر ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اسلام سے پہلے دنیا میں تاریکی ہی تاریکی تھی۔

فخر اور نرگسیت کے لیے کم علمی ایک ضروری شرط ہے، یوں کہا جاسکتا ہے کہ عالم کے لیے انکسار اتنا ہی فطری ہے جتنا بچے کے لیے فخر۔

ہماری نسلوں کو بے علم رکھنے کے لیے صدیوں سے ایک تحریک جاری ہے۔ برصغیر ہند میں جب مسلم بادشاہ اور ان کے رؤسا حکمران تھے تو ان کے غلبہ و اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ ایک ہجوم ان کی نگرانی کرے، ان کے لیے سینہ تان کر میدان میں اُترے، ان کی تلوار بنا رہے۔ ایسا جاں نثار ہجوم ہندو رعایا میں سے بھرتی کرنا ممکن نہ تھا اور صرف مسلم عوام ہی ان کے اقتدار کے محافظ ہوسکتے تھے لہٰذا انہیں طرح طرح کا فخر سکھایا گیا۔

مسلمان ہونے کا فخر، بہادری کا فخر، گردنیں کاٹنے کی فضیلت اور وافر قوتِ مردمی کا فخر۔ چنانچہ ہمارے تاریخی ادب میں اس طرح کے جملے کثرت سے ملتے ہیں؛ کشتوں کے پشتے لگادیے؛ کفار کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا؛ شہر کی گلیاں بت پرستوں کی لاشوں سے بھر گئیں؛ اتنی بیویوں کا حق زوجیت عمدگی سے ادا کیا۔

دین کے فخر میں بھی صرف نعرے لگانے اور جذباتی ہونے کو فضیلت دی گئی، دین کے لیے صرف قرآن پڑھ لینے کو علم و فضل کی بنیاد قرار دے دیا گیا، چنانچہ مسلم حکمرانی کے آٹھ سو برس میں برصغیر میں عوام کی تعلیم کا کوئی نظام نہ بن سکا۔

علم کیا ہے؟ کن معاملات کا علم ضروری ہے؟ کیا زراعت، تجارت، حرفت، سماجی زندگی یعنی انسانوں کے پُرامن تعلقات، صحت عامہ اور ثقافت و تفریح، ایسے بیسیوں معاملات پر غوروفکر کی ضرورت ہے یا نہیں؟ اس پر مسلم ادوار میں نہ کبھی توجہ دی گئی، نہ کوئی پیش رفت ہوسکی۔

چنانچہ برصغیر جو اسلام کے ظہور سے پہلے علم ہندسہ، ریاضی، فسلفہ ویدانت، علم موسیقی اور فن سنگ تراشی کے لیے مشہور تھا، ہمارے مسلم بادشاہوں کے دور میں کسی بھی میدان میں آگے نہیں بڑھا۔

جنوبی ہند اور بنگال میں دستکاری کی جو روایت ہندوستان کا فخر بیان کی جاتی ہے اس میں مسلمانوں کی دلچسپی صرف ٹیکس وصول کرنے تک محدود تھی یا تجارت کے لیے۔ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم نے ہندوستان میں عدل قائم کیا۔ لیکن سچ یہ ہے کہ اچھوت اچھوت رہے اور ستی کی رسم جاری رہی۔

جب انگریزوں نے مسلمان بادشاہوں کا اقتدار ختم کیا تو ہمارے دینی رہنماؤں نے اسے اسلام کا المیہ قرار دے کر مسلم عوام کو جدید علم و فکر سے ٹکرادیا۔ وہی خود پسندی اور تہذیبی نرگسیت جس نے صدیوں تک عام مسلمانوں کو عام ہندوؤں سے دور رکھا تھا، اب فرنگیوں کے کفری علوم سے دور رکھنے کے لیے ہتھیار بنائی گئی، جن لوگوں نے علومِ نو کی ضرورت پر زور دیا، کافر کہلائے اور اب تک کافر ہی کہلارہے ہیں۔

تحریک پاکستان کے رہنماؤں کا نظریہ جو بھی تھا، لیکن یہ واضح ہے کہ ہمارے رؤسا اور علمائے دین اس مشن پر متفق تھے کہ مسلم عوام کو علم و انکسار سے دور اور فخر پر قائم رکھا جائے۔ اس کے لیے دین اسلام کو ہتھیار بنانا فطری بھی تھا اور آسان بھی۔

پچھلے ساٹھ برس سے مسلسل بڑھتا ہوا دینی اُبھار اور مسلسل گہری ہوتی ہوئی خود پسندی ایک دوسرے کا حصہ ہیں۔ ساری دنیا سے نفرت کرنے اور ٹکرانے کے لیے ایسی ہی خود پسندی ہٹلر نے جرمن قوم میں اُبھاری تھی اور جاپانی جرنیلوں نے جاپانیوں میں پیدا کی تھی۔

ان اقوام کی ایجادی اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف گرچہ ساری دنیا کو تھا اور ان دونوں ملکوں کے جرنیلوں اور رہنماؤں کا کردار ایسا مشکوک یا متنازع نہ تھا جیسا کہ ہمارے ہاں ہے۔ پھر بھی ان طاقتور قوموں کا جو انجام ہوا سب کے سامنے ہے۔

نجانے ہمارے فوجی لیڈروں، دینی عالموں اور وڈیروں نے مل کر ہماری نسلوں کو اسلامی فخر کے ذریعے جہالت کے اندھیرے میں کیوں دھکیلا ہے؟ ممکن ہے یہ سب نیک نیتی سے محض کم علمی کی وجہ سے کیا گیا ہو؛ لیکن جب اس کے نتیجہ میں خود کش بمبار اور طالبان پیدا ہوتے ہیں جو اپنی ہی قوم کی انتڑیاں اُدھیڑے ڈال رہے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ دنیا سے نفرت اور علیحدگی کے جارحانہ رویوں کا اگلا فطری نتیجہ وہ تصادم ہے جس کا پھل بربادی اور انتشار کے سوا کچھ نہیں؛ ان خوفناک حالات میں اسی صدیوں پرانے طرزفکر پر ڈٹے رہنے کا سبب کچھ اور ہی نظر آتا ہے۔

دنیا بھر میں ایک بھی مسلم ملک ایسا نہیں جس نے ہماری اسلامی یا تصادمی سیاست کی حمایت کی ہو۔ دوسری طرف امریکا، یورپ، روس اور ہندوستان کی طرف سے متحدہ کارروائی کی باتیں سننے میں آرہی ہیں، جس پر چین کا ردّعمل غالباً خاموشی کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارے کچھ حلقے کسی کے اشارے پر ہماری افواج اور عوام کو ایک ناقابل بیان تباہی  کے لیے تیار کر رہے ہیں؟


 پروفیسر مبارک حیدر پاکستان کے مایہ ناز دانشور ہیں. ان کی کتابیں "تہذیبی نرگسیت" اور "مبالغے، مغالطے" اردو نان-فکشن میں جدید فکر کی نئی شروعات سمجھی جاتی ہیں.

مبارک حیدر
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔