اسلام آباد: سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات پراقوام متحدہ نے پاکستان کے نام نہایت 'سخت الفاظ' پر مشتمل ایک خط تحریر کیا تھا، جسے حکومت نے اب تک خفیہ رکھا ہوا ہے۔
انتہائی باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جولائی 2010ء کے دوران بینظیر بھٹو قتل کی تحقیقات کرنے والے عالمی کمیشن کی پندرہ اپریل 2010ء میں جاری ہونی والی رپورٹ پراقوام متحدہ کو شدید تحفظات سے بھرا ایک ردعمل بھیجا تھا۔
جس کے جواب میں تین رکنی تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو مونیز نے سخت الفاظ پر مشتمل یہ خط تحریر کیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اس خط میں کہا گیا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی بینظیر بھٹو قتل کیس کے سازشی عناصر، منصوبہ بندی اور مالی تعاون کرنے والوں کے نام ظاہر کرنے کا کوئی ارادہ ہی نہیں رکھتی۔
شاہ محمود قریشی نے رابطہ کرنے پر اس خط کی دفتر خارجہ میں موجودگی کی تصدیق کی۔
لیکن انہوں نے خط کے مندرجات پر گفتگو سے پرہیز کرتے ہوئے کہا کہ: یہ سوال دفتر خارجہ سے کیا جانا چاہیے کہ آخر کیوں اس خط کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔
خیال رہے کہ شاہ محمود نے اپنے دور وزارت میں بھی اس خط کا تذکرہ کسی فورم پر نہیں کیا تھا۔
سابق وزیر خارجہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'حکومت پانچ سال گزرنے کے باوجود اب تک اس سازش کے پیچھے چہروں کو بے نقاب کرنے میں ناکام رہی ہے'۔
'پی پی پی کے رہنما کہتے آئے ہیں کہ وہ بی بی کے قاتلوں کو جانتے ہیں، لیکن مجھے نہیں پتہ کہ وہ ان کے نام عوام کے سامنے کیوں ظاہر نہیں کر رہے'۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس خط کے بارے میں کوئی اور شخصیت بھی آگاہ ہے تو انہوں نے کہا کہ 'اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر عبداللہ حسین ہارون ان دنوں ملک میں ہیں اور وہی اس موضوع پر بات کر سکتے ہیں'۔
ڈان کو معلوم ہوا ہے کہ عبداللہ ہارون نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے ایک ملاقات میں خط کے ایک حصے کو جاری نہ کرنے کی درخواست کی تھی، جسے منظور کر لیا گیا تھا۔
کراچی میں رہائش پزیرعبداللہ ہارون سے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے بات نہ ہو سکی۔
دفتر خارجہ کے ترجمان معظم خان نے اس حوالے سے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ متعلقہ افسر سے معلومات حاصل کریں گے۔
بعد میں معظم خان نے ڈان کو بتایا کہ کوششوں کے باوجود ان کا متعلقہ افسر سے رابطہ نہیں ہو سکا۔
خیال رہے کہ اقوام متحدہ نے اسلام آباد کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جانے کے بعد تحقیقات کو دوبارہ نہ کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔
چوبیس دسمبر 2010 میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان فرحان حق نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ عالمی ادارہ جلد ہی رپورٹ پر پاکستان کے اعتراضات کا جواب دے گا۔
حق نے کہنا تھا کہ 'بان کی مون کو کمیشن پر مکمل اعتماد ہے اور وہ جلد ہی بینظیر بھٹو قتل کی تحقیقات پر شاہ محمود قریشی کے خط کا جواب دیں گے'۔
شاہ محمود قریشی نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ رپورٹ میں کمیشن کے پاکستان فوج اور آئی ایس آئی کے حوالے سے دیئے گئے ریمارکس شواہد کی بنیاد پر نہیں ہیں۔
یو این کی جانب سے منظر عام پر لائے گئے اس خط میں سابق وزیر خارجہ نے مزید کہا تھا کہ دونوں اداروں سے متعلق کمیشن کا مشاہدہ ٹھوس ثبوتوں اور حقائق کے بجائے محض ذاتی خیالات پر مبنی ہے۔
یو این میں رپورٹ کے مصنف اور چلی کے سابق سفیر مونیز کے قریبی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ کمیشن کے سربراہ رپورٹ پر پاکستانی ردعمل سے خوش نہیں تھے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یو این کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ کسی رکن ملک نے ایک معاملے کی تحقیقات کی درخواست کی، اس کا معاوضہ بھی ادا کیا لیکن بعد میں اس کے نتائج کو مسترد کر دیا۔
ذرائع کے مطابق، رپورٹ پر اعتراضات کے بعد مونوز نے کہا تھا کہ وہ ابتدا سے ہی اس معاملے کی تحقیقات کرنے سے گریز کر رہے تھے لیکن پاکستانی حکومت کی جانب سے کمیشن پر مکمل اعتماد کے اظہار اور بار بار درخواست کے بعد انہوں نے یہ کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ابتدا میں صدر آصف علی زرداری سمیت سب نے ہی رپورٹ کو تسلیم کیا لیکن اب یہ سب کچھ ہو رہا ہے'۔
یو این کی اس رپورٹ پر فوجی اسٹیبلشمنٹ کے علاوہ سول حکومت کے بعض حلقے بھی اعتراض کرتے ہیں۔
آئی ایس پی آر کے سابق ترجمان میجر جنرل اطہر عباس تسلیم کرتے ہیں کہ فوج کو رپورٹ پر کچھ تحفظات تھے اور اس کی وجہ کمیشن کا اپنے دائرہ اختیار سے باہر جا کر کام کرنا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'ہم نے اپنے تحفظات سے حکومت کو آگاہ کرتے ہوئے ان سے یو این کے سامنے احتجاج ریکارڈ کرنے کے لیے کہا تھا'۔