کراچی: موسم سرما کی سوغاتوں میں مونگ پھلی کو اپنی افادیت اور کم قیمت ہونے کے باعث خاص اہمیت حاصل رہی ہے، اسی لیے موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی اس کی مانگ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
دسمبر کی سخت سردی ہو اور گرم گرم ریت میں بھونی جارہی مونگ پھلیوں کی خوشبو ہو، تو ہر کوئی اس کی طرف کھنچا چلا آتا ہے۔خشک میوہ جات کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے غریبوں کے پاس ایک مونگ پھلی کا ہی سہارا باقی رہ گیا تھا، جس کے استعمال سے وہ سرد موسم میں اپنے جسم میں حرارت پیدا کرسکتے تھے۔
لیکن اس سال اس کی مانگ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے اور موسم سرما کی یہ سوغات 170 سے 200 روپے کلو تک فروخت کی جارہی ہے۔
مونگ پھلی کو غریبوں کا بادام کہا جاتا ہے، جبکہ اس میں بعض صورتوں میں بادام سے بھی زیادہ افادیت موجود ہے، مثال کے طور پر مونگ پھلی میں ایسے اینٹی آکسیڈنیٹ ہیں جو فوائد کے اعتبار سے سیب، گاجر اور چقندر سے بھی بڑھ کر ہیں۔
اس میں موجود غذائی اجزاء کم وزن افراد سمیت باڈی بلڈنگ کرنے والوں کے لیے بھی نہایت مفید ثابت ہوئے ہیں۔
اس میں پایا جانے والا وٹامن ای کینسر کے خلاف لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے جبکہ اس میں موجود قدرتی آئرن خون میں نئے خلیات پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
سردی سے حفاظت کرنے والی غذائیں مثلاً انڈا، مچھلی اور خشک میوہ جات مہنگائی اور محدود ہوتی قوت خرید کے باعث لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
آج سے پچیس تیس سال پہلے جو لوگ بچے تھے، انہوں نے چلغوزے جی بھر کے کھائے ہوں گے، لیکن اب چلغوزے 100 روپے چھٹانک کے حساب سے فروخت ہورہے ہیں اور غریب کو تو چھوڑئیے متوسط طبقے کے افراد اس کے استعمال کا تصور نہیں کرسکتے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب اب مونگ پھلی بھی غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہوتی جارہی ہے۔