کھیل

کرکٹ: سال 2012 کی جھلکیاں

دو ہزار بارہ میں ویسٹ انڈیز نے ٹی ٹونٹی کا عالمی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تو جنوبی افریقہ نے ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی پوزیشن اپنے نام کر لی۔
Welcome

میلبورن: سال 2012 رخصت ہونے کو ہے اور ہر سال کی طرح اس دفعہ بھی کرکٹ کی دنیا میں کئی ہنگامے برپا ہوئے، کہیں کسی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تو کہیں کسی نے فتح کا جشن منایا، کوئی اسکینڈلز کی نذر ہوا تو کسی کو ریٹائرمنٹ کا دکھ جھیلنا پڑا، اور ایک بار پھر یہ سال کرکٹ کی دنیا میں اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ رخصتی کیلیے پرتول رہا تاہم اس دوران کئی خوشگوار اور تلخ واقعات رونما ہوئے۔

جنوبی افریقہ نے سال بھر ٹیسٹ کرکٹ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سال کا اختتام ٹیسٹ کی نمبر ایک ٹیم کی حیثیت سے کیا جبکہ ویسٹ انڈیز نے 21ویں صدی میں 1970 کی دہائی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔

تقریباً ایک سال تک ٹیسٹ کرکٹ کی نمبر ایک ٹیم کی پوزیشن پر براجمان رہنے والی انگلینڈ کو اگست میں گریم اسمتھ کی جنوبی افریقی ٹیم نے لارڈز کے مقام پر سیریز میں 2-0 سے شکست دیکر پہلی پوزیشن سے محروم کرنے کے ساتھ ساتھ خود اس پر قبضہ جمالیا تھا۔

پروٹیز نے اپنی اس شاندار کارکردگی کا سلسلہ جاری رکھا اور آسٹریلیا کو اس کی ہی سرزمین پر شکست دیتے ہوئے سیریز 1-0 سے جیت لی تھی، اس کے ساتھ ساتھ جنوبی افریقہ نے اس سال لگاتار 10 ٹیسٹ میچز میں ناقابل شکست رہنے کا ریکارڈ بھی بنا لیا، ان میں سے نو ٹیسٹ غیر ملکی سرزمین پر کھیلے گئے تھے۔

دو ہزار دو سے اب تک سب سے زیادہ میچوں میں قیادت کے فرائض انجام دینے کا ریکارڈ قائم کرنے والے گریم اسمتھ کو ان فتوحات کے حصول میں شاندار پرفارمرز کا ساتھ حاصل رہا۔

ڈیل اسٹین، مورنے مورکل اور ورنون فلینڈر پر مشتمل دنیا کے خطرناک ترین اٹیک کو تجربہ کار آل راؤنڈر جیک کیلس کا ساتھ حاصل رہا تو دوسری جانب بیٹنگ کا بوجھ ہاشم آملا کے قابل بھروسہ کاندھوں نے اٹھایا ہوا تھا جو اس وقت دنیا کے سب سے مستقل مزاج بلے باز ہیں۔

نوے کی دہائی تک کالی آندھی کے نام سے مشہور ویسٹ انڈیز کو رواں سال ایک عرصے بعد خوشیاں منانے کا موقع میسر آیا، کیریبیئن ٹیم نے 2012 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل میں سری لنکا کو شکست دے کر ورلڈ چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کر لیا، ویسٹ انڈیز نے 1975 اور 1979 میں لگاتار دو بار ون ڈے کرکٹ کا عالمی چیمپیئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا تاہم اس کے بعد سے وہ کوئی بھی عالمی اعزاز اپنے نام کرنے میں ناکام رہی تھی۔

 مارلن سیمیولز نے فائنل میں 57 گیندوں پر 78 رنز کی جارحانہ اننگ کھیل کر اپنی ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا تھا، ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کرس گیل فائنل میں 36 رنز کی فتح میں کوئی خاص حصہ بٹانے میں ناکام رہے تھے تاہم انہوں نے اپنے گینگم اسٹائل سے شائقین کو خوب محضوض کیا تھا۔

اسی سال ہونے والے آئی سی سی ایوارڈ میں اسٹائلش سری لنکن بلے باز کمار سنگاکارا نے میلہ لوٹتے ہوئے سال کے بہترین کھلاڑی کے ایوارڈ سمیت تین ایوارڈ اپنے نام کیے تھے، انہوں نے ایک سال کے دوران 14 ٹیسٹ میچز میں 1444 رنز اسکور کیے تھے، جبکہ رواں سال مائیکل کلارک نے بھی چار ڈبل سنچریاں جڑتے ہوئے ایک کلینڈر ایئر کے دوران سب سے زیادہ ڈبل سنچریاں بنانے کا ریکارڈ قائم کردیا۔

کلارک نے 2012 کا آغاز ہندوستان کیخلاف سڈنی میں 329 رنز کی شاندار ناقابل شکست اننگ سے کیا اور پھر ایڈیلیڈ میں اسی ٹیم کی ایک بار پھر درگت بناتے ہوئے 210 رنز کی اننگ کھیلی تھی، انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس کے بعد اپنے ملک میں جنوبی افریقہ کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے دو ڈبل سنچریاں داغ دیں۔

تاہم ان کی یہ شاندار کارکردگی بھی آسٹریلیا کو پرتھ میں کھیلے جانے والے سیریز کے تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ میں 309 رن کے بھاری مارجن کی شکست سے نہیں بچا سکی تھی، اس میچ کے اختتام کے ساتھ ہی دنیا کے کامیاب ترین کپتان اور عظیم آسٹریلین بلے باز رکی پونٹنگ نے بھی ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

ٹیسٹ کیریئر میں 13378 رنز بنانے اڑتیس سالہ اسٹائلش بلے باز پونٹنگ اپنی آخری اننگ میں صرف آٹھ رن بنا سکے تھے، آسٹریلین پنٹر سچن ٹنڈولکر کے بعد ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ رنز بنانے والے کھلاڑی بھی ہیں۔

پونٹنگ کے ساتھ ہی 2012 میں انڈین بیٹنگ لائن کی دیوار اور ہندوستان کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک راہول ڈریوڈ نے بھی ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا جبکہ ایک اور اسٹائلش انڈین بیٹسمین وی وی ایس لکشمن کیلیے یہ سال کرکٹ میں آخری سال ثابت ہوا۔

دوسری جانب رواں سال سچن ٹنڈولکر کیلیے کوئی خاص کامیابیاں لے کر نہیں آیا تاہم اس سال اس ریکارڈ ساز بلے باز نے انٹرنیشنل کرکٹ میں 100 سنچریاں بنانے کا انوکھا ورلڈ ریکارڈ بھی قائم کر دیا۔

انگلینڈ کیلیے سال 2012 کا اس لحاظ سے یادگار رہا کہ اس نے ہندوستان کو ٹیسٹ سیریز میں 2-1 سے شکست دے کر 1985 کے بعد پہلی دفعہ انڈین سرزمین پر سیریز جیتنے کا اعزاز حاصل کر لیا، یہ ہندوستان کی گزشتہ آٹھ سال کے دوران سیریز میں پہلی شکست بھی تھی۔

ایلسٹر کک نے جہاں پورا سال بیٹنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو دوسری طرف جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست کے بعد کرکٹ سے الوداع کہنے والے سابق انگلش کپتان اینڈریو اسٹراس کی جگہ قیادت کا تاج بھی ان کے سر پر سجا دیا گیا۔

کچھ کھٹی، کچھ میٹھی

کرکٹ 2012 میں بھی تنازعات اور میچ فکسنگ اسکینڈلز کا شکار رہی تاہم اسی کے ساتھ کچھ خوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے۔

سابق پاکستانی اور ایسیکس کے لیگ اسپنر دانش کنیریا پر کرپشن کے الزام میں انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے تاحیات پابندی عائد کردی تھی۔

کنیریا کے ساتھ ساتھ ان کے ایسیکس کے ساتھی کھلاڑی مرون ویسٹ فیلڈ کو بھی کرپشن اور پیسے لے کر اہلیت سے کم کارکردگی دکھانے کے الزام میں چار ماہ جیل اور پانچ کی سال کی پابندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

کرپشن کی گونج اس سال ہندوستانی کرکٹ کے ایوانوں میں بھی سنائی دی اور کرپشن کے الزام میں ایک کھلاڑی پر تاحیات پابندی لگادی گئی جبکہ بقیہ چار پلیئرز کو جون میں نسبتاً کم سزا سنائی گئی تھی۔

انڈیا کے ہی ایک ٹی وی چینل کی جانب پاکستان، بنگلہ دیش اور سری لنکا کے امپائرز پر اسپاٹ فکسنگ کا الزام عائد کیا گیا اور بعدازاں ان امپائرز کے اعتراف جرم پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے انہیں معطل کر دیا تھا۔

رواں سال پاکستانی کرکٹ شائقین کیلیے بھی اس وقت نوید لے کر آیا جب ملک میں دو نمائشی میچز کی صورت میں دو سال بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی ہوئی۔

پاکستان آل اسٹارز الیون نے کراچی میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حفاظت میں انٹرنیشنل الیون سے میچز کھیلے، یہ مارچ 2009 میں لاہور میں سری لنکن کرکٹ ٹیم پر حملے کے بعد کھیلا جانے والا پہلا انٹرنیشنل میچ تھا، اس حملے میں چھ پولیس اہلکار اور ایک ڈرائیور ہلاک ہو گیا تھا۔

انگلینڈ کرکٹ  بورڈ اور کیون پیٹرسن کے درمیان بھی ناخوشگوار واقعات کا سلسلہ جاری رہا، جنوبی افریقی نژاد انگلش بلے باز کی جانب سے پروٹیز ٹیسٹ ٹیم کو اپنے اس وقت کی ٹیسٹ ٹیم کے کپتان اینڈریو اسٹراس کے حوالے سے قابل اعتراض پیغام بھیجنے اور بعدازاں اس کی تصدیق کے بعد انہیں ٹیسٹ ٹیم سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

عوامی سطح پر معافی مانگنے کے بعد پیٹرسن کو ٹیم میں واپس لیا گیا تھا اور اننہوں نے اس کا جشن ہندوستان کیخلاف سیریز کے دوران ممبئی میں کھیلے جانے والے دوسرے ٹیسٹ میچ میں 186 رنز کی اننگ کھیل کر منایا۔

ساؤتھ افریقہ کیلیے افسوسناک پہلو ریکارڈ ساز وکٹ کیپر مارک باؤچر کا انجرہی کے باعث کرکٹ چھوڑنا تھا، سمرسیٹ کیخلاف ٹور میچ کے دوران بیلز ان کی آنکھ سے ٹکرا گئی تھی جس کے باعث انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلیے کرکٹ سے کنارہ کشی اختیار کرنا پڑی اور اس کے ساتھ ہی کرکٹ کے اس عظیم وکٹ کیپر کے کیریئر کا افسوسناک طریقے سے اختتام ہو گیا۔

اسی سال پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث ایک عرصے تک کرکٹ سے دور رہنے والے یوراج سنگھ نے بیماری کو شکست دیتے ہوئے کرکٹ میں کامیاب واپسی کی۔

اب کچھ بات ہو جائے ریکارڈز کی، رواں سال آسٹریلین اوپنر ڈیوڈ وارنر نے اس وقت تاریخ کے پنوں میں اپنا نام درج کرا لیا جب انہوں نے انڈیا کیخالف پرتھ میں کھیلے جانے والے ٹیسٹ میچ میں 69 گیندوں پر سنچری اسکور کر کے ٹیسٹ کرکٹ میں تیز ترین سنچری کا ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔

اس دوران سب سے حیرت انگیز کارنامہ بنگلہ دیشی کھلاڑی نے انجام دیا، ٹیسٹ کرکٹ میں اپنا پہلا میچ کھیلنے والے ابو الحسن نے نومبر میں ویسٹ انڈیز کیخلاف دسویں نمبر پر کھیلتے سنچری اسکور کی، 113 رنز بنانے والے حسن اس کے ساتھ ہی گزشتہ سو سال میں ڈیبیو پر دسویں نمبر پر کھیلتے ہوئے سنچری اسکور کرنے والے پہلے کھلاڑی بن گئے۔

ٹی ٹوئنٹی میں بھی نئے نئے ریکارڈ دیکھنے کو ملے، جنوبی افریقہ کے رچرڈ لیوی نے ہیملٹن میں نیوزی لینڈ کیخلاف 45 گیندوں پر سنچری اسکور کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں تیز ترین تھری فیگر اننگ کھیلنے ورلڈ ریکارڈ قائم کر دیا، ان کی اس اننگ میں 13 فلک بوس بوس چھکے شامل تھے۔