سیاست نہیں، ریاست بچاؤ
جانے کیسے، کب، کہاں علامہ طاہر القادری شیخ الاسلام بن گیے اور نہ صرف شیخ الاسلام بن گیے بلکہ ایک بار پھر سیاست کے کارزار میں قسمت کی یاوری کے متمنی ہیں۔ پا نچ لا کھ کے جلسہ کا تو منہ سے کہہ رہے ہیں۔
ڈیڑھ دو لاکھ "بندے" اکٹھے کر نے کا دعوی تو الماس بوبی بھی نجی محفلوں میں کرتی رہتی ہیں اب منہاجینز اتنے گئے گزرے تو نہیں۔
ابھی شانی شاہ کو ہی لے لیجئے، کھڑ ے کھڑ ے بیچارے جمشید دستی سے عام انتخابات میں دست پنجہ ہو نے اور ہرانے کا اعلان کر ڈالا۔
ویسے ہماری قوم کی یاداشت بہت کمزور ہے ورنہ مجھے تو وہ پیر سپاہی یاد ہے جو فوج سے بھاگ کر روحانیت کی منزلیں طے کرگیا تھا اور پھر ایک دن لوگ جوق در جوق اس کے کہنے پر ایک میدان میں جمع ہونے لگے جہاں وہ انہیں ایک عالم سرشاری میں لے جاتا اور دلچسپ حرکات کرواتا۔ گناہ بخشوانے کے شوق میں اچھے خا صے لوگ پیر سپاہی کے ہو لئے۔
مجمع لگایا زھرا فانا نے جو ایک غیر ملکی تھی لیکن سب کی آنکھیں بند کروا کر اندھیرے میں "فلمیں" دکھایا کرتی تھی۔ روزگار، اولاد، دولت اور تسکین قلب کی تلاش میں سرگرداں لوگ زھرا کے مجمعوں کے اسیر ہو گئے۔
پھر وہ سونامی کا مجمع جو کھا گیا آسمان کیسے کیسے۔ کچھ آسمان تو ابھی تک نئے مجمعوں کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ پانچ لاکھ کا مجمع کیا ہے جناب، اس ملک میں کسی کی نظر کرم ہو تو پانچ لاکھ فدائین مل جاتے ہیں. اور یہ مت سمجھیں کہ فدائین تو بیچارے سیدھے سادے برین واشڈ لوگ ہوتے ہیں۔ پانچ لاکھ کا مجمع تو حروں کے پیشوا صبغت اللہ شاہ راشدی نے بھی لگا دیا ہے اور لگاتے بھی کیوں نہ کہ انکے والد گرامی کو جیسی سرپرستیاں حاصل تھیں، کم ہی کسی کو نصیب ہوتی ہیں۔
آپ یہ دیکھیے کہ ہر بڑ ے مجمع کے پیچھے بڑی قربانی ضرور ہوتی ہے یا کم از کم بڑا کام ضرور ہوتا ہے ورنہ بندر نچوانے والوں اور قوت بخش ادویات فروخت کرنے والوں سے بڑا مجمع ساز کون ہو سکتا ہے۔
جہاں تک منہاجینز کا تعلق ہے، ان کے انداز و اطوار مجھے طالب علموں سے زیادہ عقیدت مندوں ایسے لگتے ہیں۔ جناب، مجھے اس روز کیمپس سے جیل روڑ تک پیدل چلنا پڑا کیونکہ موصوف کی ریلی نکلی ہوئی تھی۔ منہاجینز چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے "سیاست نہیں، ریاست بچاؤ"، میں سمجھ گیا کہ اگلا پڑاؤ "سیاست سے ریاست بچاؤ" پر ہوگا۔
ایک دم سے شیخ الاسلام کا نجی ٹی وی پر تن تنہا بیٹھ جانا اور بڑ ے بڑ ے بڑبولے اینکرز کے منہ کو تالے پڑ جانا سمجھ میں آنے لگا۔ سچی بات ہے کہ "آپ نئیں یا فیر گاہک نئیں" کے مصداق تالے یا تو ایڈ ایجنسیاں دلواتی ہیں یا پھر بیڈ ایجنسیاں۔ ایک بد زبان اس ریلی میں کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب پر بہت عنایت ہے کینیڈئین ڈالرز کی۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر عمران خان پر ڈالرز کی برسات ہو سکتی ہے تو ڈاکٹر صاحب پر کیوں نہیں؟ گو کہ ڈاکٹر صاحب نے ورلڈ کپ نہیں جیتا لیکن یونیورسٹی تو بنائی ہے نا۔ دونوں نے ایک زمانے میں فوجی آمر سے ریاست بچانے کی آس بھی لگائی۔ ایک ہی محبوب کی زلف سیاہ کے اسیر جب نامراد ہوں تو رقیب بھی حبیب بن جاتے ہیں یہ دونوں تو پھر ایک ہی منزل کے متلاشی تھے۔
"سیاست نہیں ریاست بچاؤ"۔ انہیں کون سمجھایے کہ ریاست صرف سیاست ہی سے بچتی ہے ورنہ کثیرالزبان اور کثیرالنسل سماج میں سیاست کے بغیر تو رفاقت تک نہیں بچتی، آپ ریاست بچانے چلے ہیں۔ ایک بدگمان کہہ رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب تو عبوری حکومت کا میلہ لوٹنے آتے ہیں، کیونکہ کوئی انتخابی حلقه تو ہے نہیں۔ انتخابی حلقہ تو کجا انکا تو کوئی حلقہِ یاراں بھی نہیں۔
ریلیوں سے تنگ ایک بےحیا کہنے لگا ڈاکٹر صاحب شمپیین کے نشے کی طر ح سیاست کے کارزار پر چڑہ دوڑتے ضرور ہیں لیکن موسمی بخار کی طرح اتر بھی جاتے ہیں۔
الغرض جناب جتنے منہ اتنی باتیں۔ ایک بدقماش تو یہاں تک چلا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے آخر اپنا پریشر گروپ بھی تو رکھنا ہے نا، لہٰذا ہمیں دفاعِ پاکستان کونسل سمیت کئی موسمی بٹیرے غل غپاڑہ کرتے نظر آ تے ہیں. ان بےچاروں کو کیا علم کہ سیاست میں لوہا گرم ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ مگر میرے جیسے قنوطی کی سنتا کون ہے؟