پاکستان

پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اسرائیلی جاسوس

ایک اسرائیلی جاسوس کی دستاویز منظرِ عام پر جس نے عرب دنیا اور پاکستان کیلئے جاسوسی کی تھی۔

واشنگٹن: جوناتھن پولارڈ نامی ایک اسرائیلی جاسوس کو یہ ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ پاکستان کی ایٹمی پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ اس بات کا انکشاف اس ہفتے ریلیز ہونے والی دستاویز میں کیا گیا ہے۔

1984 سے 1985 تک پولارڈ نے اسلام آباد کے قریب واقع ایک نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ کی معلومات کے کئی سیٹس اسرائیلی حکام کے حوالے کئے اور یہ آفیشل امریکی ڈاکیومنٹ تھے۔

پولارڈ، اگرچہ امریکی شہری ہیں لیکن امریکی بحریہ سے وابستہ رہتے ہوئے انہوں نے اسرائیل کے لئے جاسوسی کی۔ 1987  انہیں اسی بنیاد پر عمر قید کی سزا دی گئی لیکن انہیں 21 نومبر 1987 میں پے رول پر رہا بھی کیا جاسکتا ہے۔

 14 دسمبر، 2012  کو سی آئی اے نے ایک خفیہ دستاویز جاری کی جس کا نام ' جوناتھن جے پولارڈ جاسوسی کیس، نقصان کا اندازہ' ہے اور یہ رپورٹ 30 اکتوبر 1987 کو تیار کی گئی تھی۔

یہ دستاویز، جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے نیشنل سیکیورٹی آرکائیو پروجیکٹ کی اپیل پر جاری کی گئی ہے جس میں پولارڈ کے جاسوسی مشن پر معلومات موجود ہیں۔ یہ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جس کا مقصد امریکہ میں خفیہ اور در پردہ معلومات کو کم سے کم کرکے لوگوں اس کی لوگوں تک رسائی فراہم کرنا ہے۔

پولارڈ کیخلاف عدالتی کارروائی میں سابق امریکی وزیرِ دفاع کیسپر وائنبرگر نے بتایا تھا کہ پولارڈ کو جو خفیہ دستاویز دی گئیں ان سے چھ فٹ چوڑا، اتنے ہی فٹ لمبا اور دس فٹ اونچا کمرہ بھرا جاسکتا ہے۔

سی آئی اے کی تفصیلات سے معلوم ہوا ہے کہ پولارڈ کو عرب ( اور پاکستانی ) نیوکلیئر پروگرام، عرب ممالک کی جانب سے باہر سے خریدے گئے ہتھیاروں اور کیمیائی اسلحے، سوویت جنگی ہوائی جہاز، سوویت ایئر ڈیفینس سسٹم، فضا سے فضا تک مارکرنےوالے میزائلوں اور عرب افواج کی تیاریوں میں خصوصی دلچسپی تھی۔

دستاویز میں بڑا حصہ وہاں سے سینسر کیا گیا ہے جس میں پولارڈ کی جاسوسی کا اسرائیلی فائدے پر بحث کی گئی ہے۔ صفحہ 58  پر لکھا ہے کہ پولارڈ نے اسرائیل کےلئے مٹیریل بھی چُرایا اور کافی فوائد ۔۔۔ ( سینسر)۔

پھرصفحہ 59 پر لکھا ہے ( سینسر) پولارڈ نے تیونس میں پی ایل او ہیڈ کوارٹر سے متعلق معلومات بھی دیں۔ ساتھ ہی تیونس اور لیبیا کے ایئر ڈیفینس کے بارے میں معلومات فراہم کی اور اسلام آباد کے قریب پاکستان کے نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ پر بھی دستاویز فراہم کی تھیں۔

اکتوبر 1985 میں اسرائیل نے ان معلومات کی بنا پر تیونس میں واقع پی ایل اور کے صدر دفاتر پر حمہ کیا تھا۔

ٓرکائیو کی ویب سائٹ پر پوسٹ کی گئی دستاویز میں تقریباً دس جگہ پاکستان اور اس کی ایٹمی تنصیبات کا ذکر ہے جسے مٹایا گیا ہے۔  بعض ڈاکیومینٹس میں افغان جنگ اور اس میں پاکستان کے کردار پر بھی بات کی گئی ہے۔

اگرچہ سی آئی اے کی دستاویزات سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ امریکی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کتنا کچھ جانتے تھے لیکن اسی ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ دوسری دستاویز میں ایسا نہیں ہے۔

ریکارڈ سے ظاہر ہے کہ 1980  کے عشرے میں امریکی یہ جانتے تھے کہ پاکستان ایٹمی میدان میں خاصی پیش رفت کررہا ہے لیکن افغانستان میں جاری سوویت جنگ میں اسلام آباد کی حمایت کے بدلے پاکستان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ پھر جولائی 1982  میں ریگن حکومت نے سی آئی اے کے سابق نائب سربراہ جنرل ورنن والٹرز کو جنرل ضیاء الحق کے پاس روانہ کیا تاکہ انہیں ایٹمی پروگرام میں پاکستانی کی خفیہ اور تیز رفتار پیش رفت پر واشنگٹن کی تشویش سے آگاہ کیا جاسکے۔

پھر 1986 میں آرمز کنٹرول اور ڈس آرمامنٹ ایجنسی کے ڈائریکٹر، کینتھ ایڈلمان نے بھی وائٹ ہاوس کو خبردار کیا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام آگے بڑھا رہا ہے۔

 ایک دستاویز سے تو یہ دلچسپ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ریگن انتظامیہ یہاں تک چاہتی تھی کہ پاکستان اپنے خفیہ راز انہیں نہ بتائے کیونکہ اس صورت میں سچ سامنے آجانے پر کانگریس کے سامنے یہ ثابت کرنا مشکل ہوجاتا کہ پاکستان ایٹمی پروگرام پر کام نہیں کررہا ۔ اس سے افغان مزاحمت کو نقصان پہنچنے کا بھی اندیشہ تھا۔

 ریکارڈ کے مطابق اس وقت بھی پاکستان اور امریکہ کے درمیان اعتماد اور بھروسے کی کمی تھی اور آج بھی ہے۔

1981 کے موسمِ سرما میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے انٹیلی جنس کی بنا پر اندازہ لگایا کہ ' اس وقت پاکستان ایک کار آمد بم بنانے کے قابل ہوچکا ہے،' تاہم کہوٹہ پلانٹ سے حاصل شدہ افزودہ (اینرچڈ) یورینیم سے 1983سے قبل ایسا کرنا ممکن نہ تھا۔ اس بارے میں وزیرِ خارجہ جارج شلٹز نے صدر ریگن کو خبردار بھی کیا تھا۔

 اس کے بعد 1987 میں سینیئر اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ آفیشلز نے لکھا کہ جنرل ضیا ایٹمی پروگرام کے بارے میں اپنی حد سے تجاوز کررہے ہیں۔

لیکن صدر جمی کارٹر کے دنوں میں امریکہ نے دوسری اقوام پر زبردست دباو ڈالا کہ وہ پاکستان کو کسی بھی طرح حساس ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم نہیں کریں۔  ان کا خیال تھا کہ اس طرح سے وہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نہ صرف تاخیر سے دوچار کرسکتے ہیں بلکہ اسے پیچھے بھی لے جایا جاسکتا ہے۔

اسی سلسلے میں 1987  امریکہ میں کسٹم حکام نے ایک پاکستانی ارشد پرویز کو گرفتار کیا جو کہوٹہ پلانٹ کے لئے خاص قسم کا فولاد اسمگل کرنے کی کوشش رہے تھے لیکن اس موقع پر بھی ریگن انتظامیہ نے کہا کہ پاکستان ( اب بھی) ایٹمی ہتھیار نہیں رکھتا ۔