اسلام آباد: پاکستان نے سال دوہزار گیارہ اور بارہ کے لئے اقتصادی سروے جاری کردیا ہے۔
سروے پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیرِخزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہا کہ گزشتہ جولائی سے اس سال اپریل تک سرمایہ کاری کا حجم 66 کروڑ ڈالر رہاجو گزشتہ سال 1.2 ارب ڈالر تھا اور یوں سرمایہ کاری میں 48.2 فی صد کمی ہوئی۔
ڈاکٹرعبدالحفیظ شیخ اکنامک سروے رپورٹ کے اجرا کے موقع پر صحافیوں کو اس کی تفصیلات بتارہے تھے۔
بڑے صنعتی یونٹ میں شرح نمو 2 فی صد کی بجائے 1.8 فی صد رہی، بچتیں قومی آمدنی کے 13.2 فی صد سے کم ہوکر 10.8 فی صد رہ گئیں، سرمایہ کاری قومی آمدنی کا 13 فی صد سے کم ہوکر صرف 8.4 فی صد رہ گئی۔
سروے میں بتایا گیا کہ جولائی سے مارچ تک حکومت کے جاری کھاتے کا خسارہ 3.1 ارب ڈالر رہا ، جولائی سے اپریل افراط زرکی شرح 10.8 فی صد رہی جو گزشتہ سال 13.8 فی صد تھی جبکہ کھانے پینے کی چیزیں 11 فی صد مہنگی ہوئیں۔
اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال دو ہزار گیارہ بارہ میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کے کل حجم کا تخمینہ ایک سو چورانوے کھرب سینتیس ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں تین اعشاریہ سات فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔
وفاقی وزیرِ خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے کہ اس سال ملک میں بحرانی کیفیت تھی۔ انہوں نے کہا کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے اور بد امنی کی وجہ سے معاشی اہداف حاصل نہ ہوسکے۔
" اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتاہے تو اس کے معیشت پربراہِ راست منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں،" ڈاکٹر شیخ نے کہا۔
ٹیکس وصولی
اکنامک سروے میں بتایا گیا کہ گزشتہ مالی سال کے لئے ایف بی آر نے ٹیکس جمع کرنے کا ہدف ایک ہزار نو سو باون اعشاریہ تین ارب روپے طے کیا تھا جبکہ ایک ہزار چارسو چھبیس ارب روپے کا ٹیکس وصول کیا گیا جو اس سے پہلے کے مالی سال کے مقابلے میں چوبیس فیصد اضافہ ظاہر کرتا ہے۔
سروے کے مطابق سال دوہزار گیارہ ۔ بارہ کے پہلے دس ماہ میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا پانچ فیصد تھا جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں پانچ اعشاریہ پانچ فیصد تھا۔
سندھ اور بلوچستان میں سیلاب سے 96 لاکھ افراد متاثر ہوئےاورہم نے کفایت شعاری سے حکومت چلائی۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال مہنگائی کی شرح دس اعشاریہ آٹھ فیصد رہی ۔