پاکستان کی سپریم کورٹ نے 2007 میں لال مسجد میں ہونے والے فوجی آپریشن کی تحقیقات کے لیے ایک رکنی کمیشن قائم کر دیا ہے۔
یہ واقعہ اب تک کئی طریقوں سے ملک پر اثر انداز رہا ہے، لہذا اس خونی واقعے کے پیچھے حقائق کو قوم کے سامنا لانا ضروری ہے تاکہ اس سے جڑے تنازعے کو ختم کیا جا سکے۔
اگر ایسا کرنا ہے تو پھر کمیشن کی تحقیقات کا دائرہ صرف یہ جاننے تک محدود نہیں ہونا چاہیے کہ آپریشن میں کتنے لوگ ہلاک ہوئے یا پھر متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ ادا کیا گیا کہ نہیں۔
کمیشن کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرے کہ آخر لال مسجد میں فوجی آپریشن کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔
کیا مسجد میں آپریشن بلا اشتعال تھا؟مسجد میں چھپے مسلح افراد کون تھے جنہوں نے اسپیشل فورسز کو ایک ہفتے سے بھی زیادہ مصروف رکھا اورایک افسر سمیت پندرہ فوجیوں کو ہلاک کیا؟اور یہ کہ عبادت گاہ میں خود کار اسلحہ کیوں موجود تھا؟
یہ وہ سوال ہیں، جن کا کمیشن کو جواب ڈھونڈنے کی ضرورت ہے تاکہ جولائی 2007 میں ہونے والے اس خونی مقابلے کے حقائق سامنے آ سکیں۔
اس سانحہ کی وجہ سے ملک کو کئی خود کش دھماکوں کا سامنا کرنا پڑا، جس میں ہزاروں شہری ہلاک ہوئے۔
پاکستان کی شدت پسندی کے خلاف جدو جہد میں لال مسجد آپریشن ایک اہم موڑ بن کر سامنے آیا ۔
یہ واقعہ جہاں فوج کے عسکریت پسندوں کے خلاف اعلان جنگ کا سبب بنا وہیں اس کے سنگین اثرات کے سائے تاحال ملکی سیاست پر منڈلا رہے ہیں۔
یہ دلیل دی جاتی ہے کہ لال مسجد میں آپریشن کی ضرورت نہیں تھی، تاہم فوجی کارروائی کو بلااشتعال قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آئی ایس آئی ہیڈ کواٹر کے نذدیک ہی اسلام آباد کے وسط میں موجود اس حکومت مخالف مسجد کے شدت پسندوں کا مرکز بننے کے بعد گزشتہ کئی سالوں سے تناؤ میں اضافہ ہورہا تھا۔
سن 2004 میں اس مسجد کے علماء نے فتویٰ جاری کیا جس میں عوام کو وزیرستان میں فوج کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسندوں کا ساتھ دینے پر زور دیا گیا۔
اس فتوے میں پاکستان فوج کے خلاف لڑنے والے شہید قرار دیے گئے اور کہا گیا کہ شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی اسلامی انداز میں تدفین نہ کریں۔
اس کے علاوہ لال مسجد میں طالبان طرز کے اسکواڈ بھی بنائے گئے۔
صورتحال میں اُس وقت کشیدگی آ گئی جب لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ کی طالبات نے قریب ہی واقع بچوں کی لائبریری پر قبضہ کر لیا۔
لاٹھی بردار، برقعوں میں ملبوس یہ نوجوان شدت پسند خواتین، مسجد اور اس سے ملحقہ دو مدرسوں سے باہر آ جاتیں اور ان گھروں پر چھاپے مارتیں جہاں مبینہ طور پر فحاشی کے آڈے موجود تھے۔
ان طالبات نے ایسی خواتین کو بھی اغواء کرنا شروع کر دیا تھا جو ان کی نظر میں فاحشہ تھیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے علاقے میں واقع مارکیٹ میں غیر اسلامی سمجھی جانے والی وڈیو کیسٹس اور ڈی وی ڈیز کو بھی نذر آتش کرنا شروع کر دیا۔
ان سرگرمیوں کی وجہ سے تشویش میں مبتلا لوگوں نے حکومت سے ان اسکواڈز کو ختم کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا۔
اسی دوران، لال مسجد کے کرتا دھرتاؤں نے اپنی سوچ کے مطابق اسلامی انداز میں انصاف کی فراہمی کے لیے خود ساختہ عدالتیں بھی بنا لیں۔
جس کے بعد لوگ کاروباری، ذاتی اور دوسری نوعیت کے مسائل کے حل کے لیے ان سے رجوع کرنے لگے۔
ان علماء نے ملک میں طالبان طرزِ حکمرانی کے لیے ایک چارٹر بھی پیش کرتے ہوئے ملک میں انقلابی کمیٹیاں قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔
یہ غیر قانونی اقدامات یقینی طور پر انتظامیہ کے لیے سنجیدہ چیلنج بنتے جا رہے تھے۔
ان خود ساختہ اسکواڈز کی جانب سے کچھ پولیس اہلکاروں کے اغواء اور سرکاری عمارتوں کو آگ لگانے کے باجود انتظامیہ کئی ماہ تک تحمل کا مظاہرہ کرتی رہی۔
صورتحال اس حد تک خراب ہو چکی تھی کہ بعض حلقوں میں خدشات اُبھرنے لگے کہ کہیں یہ شدت پسند دارالحکومت پر قبضہ نہ کر لیں۔
ان خدشات کے بعد بالاخر مشرف حکومت نے ان سرگرمیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کر لیا۔
حکومت نے آخری حربے کے طور پر فوجی آپریشن سے قبل طالب علموں کو خود کو حوالے کرنے کی مہلت دی اور لاؤڈ اسپیکرز کے ذریعے طالبات کو وہاں سے نکل جانے کے بار ہا اعلانات کیے۔
اس حوالے سے فوج نے آنے والے دنوں میں مختلف ڈیڈ لائنز بھی مقرر کیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ فوجی آپریشن سے قبل نامعلوم عسکریت پسندوں کو چھوڑ کر، مدرسے کے تقریباً تمام ہی طلباء اور طالبات لال مسجد سے نکل چکے تھے۔
اگلے مسلسل سات دنوں تک مسجد میں موجود یہ عسکریت پسند بھاری تعداد میں خود کار اور جدید اسلحہ کے ساتھ فوجی کمانڈوز کی کارروائی کا بلا تھکان مقابلہ کرتے رہے۔
آپریشن ختم ہونے کے اگلے دن جب میں وہاں گیا تو مجھے پوری عمارت میں جگہ جگہ لڑائی کے نشان نظر آئے۔
عمارت کے تہہ خانہ میں جہاں عبدالرشید غازی اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آخری دم تک موجود رہے، وہاں کی دیوار دھماکے کی وجہ سے بری طرح متاثر ہو چکی تھی۔
ہر طرف بارود کی بو پھیلی ہوئی تھی جبکہ ایک کونے پر لوہے کا فرنیچر پڑا ہوا تھا۔
جامعہ حفصہ کا ایک کمرہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا کیونکہ اس کمرے میں موجود خود کش بمبار نے کمانڈوز کے عمارت میں داخل ہونے پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔
اگلے کمرے میں خون آلود فرش پر مکھیاں بھنبنا رہی تھیں اور وہ جگہ جہاں عسکریت پسندوں نے بنکر بنا رکھا تھا، اب وہاں ملبے کا ڈھیر موجود تھا۔
قرآنی آیات سے مزین دیواروں پر جا بجا گولیوں کے نشان پینتیس گھنٹوں پر محیط اُس خطرناک فوجی آپریشن کا ثبوت تھے، جس میں کمانڈوز نے عمارت کے ہر کمرے میں بھاری اسلحہ سے لیس عسکریت پسندوں کا مقابلہ کیا تھا۔
شدت پسدنوں کی یہ مزاحمت فوجی حکام کی توقعات کے برعکس کہیں زیادہ شدید ثابت ہوئی تھی۔
ہم امید کرتے ہیں کہ کمیشن مزاحمت کرنے والے عسکریت پسندوں کو شناخت کرنے کے علاوہ یہ بھی جان سکے گا کہ آخر یہ اسلحہ بردار لوگ مسجد کے اندر کیوں موجود تھے۔