نقطہ نظر

متضاد رجحانات کی لہر

افکار، نظریات اور دلوں کو جیتنے کی جنگ پسپائی کا شکار ہو رہی ہے اور لبرل نظریہ دان اقلیت میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں

دو باہم طور پر مربوط مسائل نے پاکستان کی ترقی کو زبردست دھکا پہنچایا ہے جو یہ ہیں؛

(ا)  ایک تو سکیورٹی کے لئے کئے جانے والے لازمی اقدامات جو فوج کے سیاسی تسلط کی شکل میں رونما ہوۓ ہیں اور دوسرے سماجی خدمات کے لئے مختص کئے جانے والے وسائل کے بڑے حصے کا رخ متبادل مدوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے؛ دفاعی مصارف ٣٥ ڈالر فی کس کی حد سے تجاوزکر گئے ہیں جبکہ تعلیم اور صحت کو ملاکر چوبیس ڈالرفی کس کی رقم مختص کی گئی ہے - اس کا مطلب ہے تقریبا ہر ایک ڈاکٹر کے مقابلے میں پانچ فوجی اور ہر دو فوجیوں کے مقابلے میں تین استاد -

تقریبا نصف سے زیادہ آبادی کو اچھی تعلیم ، صحت اور اپنی ہنرمندی میں اضافہ کرنے کے امکانات  اور ایک اچھی حکومت کے ثمرات سے محروم کر دیا گیا ہے- جسکی وجہ سے غیرمراعات یافتہ طبقات کو معاشی ترقی سے فیضیاب ہونے کے مواقع حاصل ہو سکتے تھے جو بصورت دیگر اپنے خاندان کی سرپرستی میں انھیں حاصل ہوتے .

(ب)  سیاسی، معاشی، فوجی اور سول بیوروکریسی کا اعلیٰ ترین طبقہ جنھیں محض اپنے مفادات عزیز ہیں کم سے کم مراعات دینے کے لئے بھی تیارنہیں تاکہ اقتدار کے کلیدی سماجی اور معاشی وسایل  پرانکا تسلط برقرار رہے جو ایک انتہائی غیر منصفانہ نظام کے قیام کی شکل میں منتج ہوا ہے - یہ طبقہ ایک بہتر مساویانہ معاشرہ قائم کرنے کی راہ میں حائل ہے جس میں سماج کے کم آمدنی والے طبقے کومساوی مواقع حاصل نہیں ہیں کہ وہ معاشرے کے ایک طبقے سے نکل  کر دوسرے طبقے میں داخل ہوسکیں - اس کے نتیجے میں ریاست اور اسکے اداروں کے قانونی جواز کا بحران پیدا ہو گیا ہے - یہ طبقہ خود اپنے مفادات کی خاطر بھی جس سے وہ بخوبی واقف ہے اس بات کے لئے تیار نہیں کہ اپنی استعداد کے مطابق اس بوجھ کو برداشت کرنے میں حصہ لے جو ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کے لئے ضروری ہے- جس کا ثبوت ہمیں واضح طور پر ٹیکس اور جی ڈی پی کی باہمی شرح میں نظر آتا ہے جو دس فی صد سے کم ہے -

حکومتی اداروں کے معیار اورکارکردگی میں مسلسل کمی کا رجحان نظر آتا ہے نیز شہریوں کو دستیاب خدمات عامہ کے دائرہ اور معیار میں بھی تنزلی ظاہر ہے- اسکا نتیجہ 'غربت' ہے جس کی پیمائش ہم بنیادی سماجی اور معاشی خدمات تک لوگوں کی پہنچ اوراس کے معیار کی بنیاد پرکر سکتے ہیں کیونکہ یہی سماجی حرکت پذ یری کی بنیاد ہے- یہ پیمانہ غربت کے ان اشاریوں سے بھی بد تر ہو چکا ہے جس کی بنیاد غذا کی وہ مقدار ہے جو انھیں حاصل ہے-

تعلیم کی بنیاد پرترقی کے جس انقلاب کی ہم بات کرتے ہیں، ہم میں اس بات پر بھی سخت اختلاف ہے کہ ہم کس قسم کا معاشرہ چاہتے ہیں- سماج کے مختلف حصوں کو جس قسم کی تعلیم کے مواقع حاصل ہیں اس کی وجہ سے بھی ہمارے سونچنے کے انداز میں تفریق پیدا ہو گئی ہے-

بجائے اس کے کہ ہمارا تعلیمی نظام ایک ایسی اکائی ہوتا جو سماجی حرکت پذیری کےمساوی مواقع فراہم کرتا (جیسا کہ بیشتر معاشروں میں ہوتا ہے)، ہمارے ملک میں اعلیٰ ترین طبقہ کے لئے علیحدہ اسکول ہیں اور کم آمدنی اور متوسط طبقہ کے لئےعلیحدہ نجی اسکول ہیں جبکہ غریب ترین آبادی کے لئے ناکارہ سرکاری اسکول ہیں .ان اداروں سے جو طالبعلم نکلتے ہیں ان کے درمیان سخت دیواریں حائل ہیں اور وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ معاشی ترقی میں مساویانہ بنیادوں پر حصہ لے سکیں -

اس سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ معیشت اس لائق نہیں کہ محدود ہنر والے ان نوجوانوں کواپنے میں جذب کر سکے - کیونکہ ہماری ترقی کی شرح گزشتہ پانچ چھ برسوں میں اور بھی خراب رہی ہے --اوسطا تین فی صد سے بھی کم-- نتیجہ یہ ہے کہ مزدوروں کی تعداد میں جو اضافہ ہوتا ہے اسکی نصف تعداد کو بھی معیشت ملازمت نہیں فراہم کر سکتی -

غیر ہنرمند اور بیروزگار نوجوانوں کویا ان نوجوانوں کو جو مستقل ملازمتوں سے محروم ہیں ، قانون نا فذ کرنے والے اداروں یا ان کی پروردہ ایجنسیوں کی زیادتیوں سے شازو نادرہی کوئی تحفظ مل پاتا ہے - چنانچہ اس نظام سے جس کے دروازے انکے لئے بند ہیں ، کوئی خاص مراعت نہیں ملتی - وہ اپنی کفالت کے لئے دولتمند طبقہ کے دست نگر بن جاتے ہیں ، جن کی تیزرفتار ترقی نے ایک ایسے وقت میں جب کہ معیشت جمود کا شکار ہے ،کم آمدنی والے طبقات اوردولتمند طبقات کے درمیان پائی جانے والی خلیج میں مزید اضافہ کر دیا ہے .

غریب ترین طبقہ کی گھریلو آمدنی جو 1970-71 میں آٹھ اعشاریہ چارفی صد تھی وہ اب گھٹ کر چھ فی صد رہ گئی ہے جبکہ امیر ترین طبقہ کی آمدنی اکتالیس اعشاریہ پانچ  فی صد سے بڑھکر پچاس فی صد ہو گئی ہے ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے درمیان فاصلہ انتہائی حدوں کو چھونے لگا ہے .

نتیجہ یہ ہے کہ ملک کی آبادی ہولناک حد تک امیروں اورغریبوں کے درمیان تقسیم ہو گئی ہے - جدیدیت پسندوں اور روایت پسندوں کے درمیان گہرا تفاوت پیدا ہو گیا ہے جو دنیا کو انتہا پسندی کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور یہ لوگ ریاست کے ستونوں اور غیر منصفانہ نظاموں اور ڈھانچوں کی مزاحمت کر رہے ہیں اور ان کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں - ایک نوجوان خودکش بمبار بنکر دولت کی افراط کی تمام علامتوں اور ریاستی اقتدار کو تباہ کرنے کے لئے کیوں تیار ہو جاتا ہے اس کی توضیح جزوی طور پر اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اس قسم  کے نظام سے اسکا کوئی بھی مفاد وابستہ نہیں ہے.

یہ بگڑتی ہوئی صورت حال مزید ابتر اس لئے ہو رہی ہے کہ ہم زمینی حقائق کی جانب ناکافی توجہ دے رہے ہیں جس کے نتیجے میں لبرل اور سیکولر نظریات کے حامل مکتبہ فکر کے لوگ ملک میں اسلامی نظام کی بحالی کے دعویداروں کے ہاتھوں تیزی سے اپنا اثر کھو رہے ہیں- جیسے جیسے افکار، نظریات اور دلوں کو جیتنے کی جنگ پسپائی کا شکار ہو رہی ہے ملک میں لبرل نظریہ دان اقلیت میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں.

میں ان لوگوں سے اتفاق نہیں کرتا جو یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ مذہبی انتہا پسندی میں اس لئے اضافہ ہوا ہے کہ غیرنمائندہ ریاستی ایجنسیاں گزشتہ دو دہائیوں سے ان قوتوں کو سر گرمی سے فروغ دےرہی تھیں اور ان کی حمایت کر رہی تھیں نیز یہ کہ ریاست انکی سرپرستی کرنا چھوڑ دے اور انہیں کھل کھیلنے کا موقع نہ دے تو ان کی روک تھام کی جا سکتی ہے .

مدرسوں کے فروغ اور اسلام پسندوں کی قوت میں اضافے کی توضیح ہم بڑی حد تک اس طرح کر سکتے ہیں- ان مدرسوں میں جن لوگوں کو داخلہ دیا جاتا ہے انھیں نہ صرف پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا ہے (جس میں سرکاری اسکول ناکام رہے ہیں) بلکہ یہاں انھیں کھانا، کپڑا اور رہنے کی جگہ بھی دی جاتی ہے اور ان کی روحانی ضروریات کو بھی پورا کیا جاتا ہے.

یہ کہنا کہ ان مدرسوں میں تعلیم پانے والوں کی تعداد پانچ فی صد سے بھی کم ہے اور اس لئے ہمیں ان کی طاقت کو مبالغہ آمیزی سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں اس خطرے کو کم کرکے پیش کرنا ہے جو اس میں پنہاں ہے .ان مدرسوں میں کم و بیش پچیس لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں جن کے ذہن کو نفرت انگیز عقاید رکھنے والے جاہل افراد تبدیل کر رہے ہیں اور ان میں سے بہت سے جلد ہی بندوقیں ہاتھوں میں اٹھا لینگے اور ان نظریہ دانوں کی حمایت میں نکل آئینگے-

دیمک زدہ، کمزور اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار پاکستانی ریاست اس لائق نہ ہوگی کہ نفرت اور تاریکی کے پالے ہوۓ ان لاکھوں مسلح دہشت گردوں کو قابو میں کر سکے، خاص طور پر ان حالات میں کہ انکے نظریات ریاست کے کلیدی اداروں میں نفوذ کر گئے ہیں اور ان کی گونج سنائی دینے لگی ہے- یہ خطرہ کہ وہ نقادوں کو خاموش کرا سکتے ہیں بیش ترین سیاسی رہنماؤں کے عوامی رد عمل سے ظاہر ہے جو بہادر ملالہ پر قاتلانہ حملے کے بعد کئے گئے تھے.

مزید براں، کمتر سماجی طبقات سے تعلق رکھنے والے فارغ التحصیل طلبہ کو جو سیاست میں آنا چاہتے ہیں ان مذہبی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ہاتھوں ہاتھ لیا جائیگا جن کے اراکین اور رہنماؤں کا تعلق اسی قسم کے سماجی معاشی پس منظر سے ہے- یہ جماعتیں ان نوجوان امیدواروں کو رہنمایانہ کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کرسکتی ہیں جس کے امکانات قومی سطح کی سیاسی پارٹیوں میں انہیں دستیاب نہیں-

آج جبکہ مغرب-دشمن فضا میں انتہا درجہ کی گرما گرمی ہے یہ جماعتیں قومی سطح کی سیاسی پارٹیوں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں ، خاص طور پر اس تناظر میں کہ یہ پارٹیاں اپنی سمت کے تعین اور حمایت کے لئے مغربی لیڈرشپ کی طرف دیکھتی ہیں - دائیں بازو کی پارٹیوں کی جڑیں اور ان کے نظریات گہرائی میں سرایت کر گئے ہیں اور انھیں تازہ قوت مل گئی ہے- اور ہم  انھیں یہ کہکر نرمی سے نظر انداز نہیں کر سکتے کہ انھیں انتخاب کنندگان کی محدود حمایت حاصل ہے، جیسا کہ اب تک نظریہ دان کرتے آئے ہیں- بات یہ ہے کہ ان سیاسی پارٹیوں میں سے بہت سی تو انتخاب کے راستے سے نہیں بلکہ دوسرے ذرایع سے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہیں .

ایک ایسے ملک میں، جہاں ہتھیار بآسانی دستیاب ہیں اور جہاں تعلیم اور ہنرمندی کا فقدان ہے، معیشت میں موثر حصہ لینے کے امکانات کم ہیں-  ڈکیتیاں اور اغوا براۓ تاوان کی وارداتیں دیکھنے میں آتی ہیں، مذہبی جوش و خروش میں اضافہ ہو رہا ہے جس نے مجنونانہ شدت اختیارکر لی ہے اور المیہ یہ ہے کہ یہ ہماری "آبادی کی تقسیم" کو (بلکہ اسے آبادی کی ہولناک تقسیم کہنا زیادہ صحیح ہوگا) ظاہر کرتا ہے جس کی فصل پاکستان نے کاٹی ہے.

ریاست کی رٹ میں جس طرح بتدریج کمی آتی جا رہی ہے اب معاملات اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی حکومت تن تنہا ان مسایل کو حل نہیں کرسکتی جوگہرائی سے جڑوں میں  پیوست ہیں- قومی سطح کی سیاسی پارٹیوں کو اپنی خاطرجمعی کوخیرباد کہنا ہوگا اور سول سوسایٹی میں لچک کی معتدل قوتوں کی حیثیت سے عوام کے سامنے اپنی وضع قطع کو تبدیل کرنا ہوگا- معمول کے مطابق رویہ کو اپنانے کی صورت میں وہ ملاؤں کو فائدہ پہنچائینگے کیونکہ سماجی روایات سے انھیں فائدہ پہنچ رہا ہے اور وہ عوام جومخمصہ میں گرفتار ہیں انھیں یہ بات زیادہ آسان نظر آتی ہے کہ وہ آسان راستہ اختیار کریں اور ہجوم میں شامل ہو جائیں.


مصنف اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر رہ چکے ہیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

شاہد کاردار
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔