پراٹھے والی گلی
جو بھی دہلی جاتا ہے وہ لال قلعہ، جامع مسجد، جنتر منتر، قطب مینار وغیرہ کی سیر ضرور کرتا ہے۔ اگر بیگم صاحبہ ساتھ ہوں تو پھر شاپنگ کے لیے پالیکا بازار اور قرول باغ جیسی جگہ خوشی خوشی یا با حالات مجبوری جاتا ہے۔
میں چونکہ اپنی کتاب، جو مشہور ہندوستانی صحافی کلدیپ نیئر کے اشتراک سے لکھی تھی، کی رونمائی کے لیے اکیلا گیا تھا اور ساری تاریخی جگہ کی ایک دفعہ نہیں دس دفعہ سیر کرچکا تھا تو سوچا کیوں نہ ایسی جگہ جایا جائے جہاں عام طور پر سیاح نہیں جاتے ہیں۔
کسی نے کہا تمہیں تو چٹورپن کا شوق ہے سو پراٹھے والی گلی ضرور جانا۔ انکی بات بھلی لگی سو انتہائی مصروف پروگرام میں سے ایک صبح وقت نکال ہی لیا۔ ڈان اخبار کے دہلی میں نامہ نگار جاوید نقوی اور پاکستانی آرٹسٹ بنی عابدی اور انکے ہندوستانی شوہر نے باری باری اپنی گاڑی اور ڈرائیور میرے حوالے کردی تھی جس سے مجھے بہت آسانی ہوگئی۔ لیکن پرانی دہلی اور بالخصوص پراٹھے والی گلی کار سے جانا مصیبت مول لینا ہے۔
'کار کو وہاں پہنچنے میں کم سے کم پینتالیس منٹ لگیں گے اور پھر بیچارہ ڈرائیور گاڑی پارک کرنے کی جگہ تلاش کرتے کرتے اپنے حواس بھی کھوسکتا ہے۔ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ آپ ہمارے شہر کی نئی زمین دوز ٹرین میٹرو پر سفر کریں۔ جہاں آپ ٹہرے ہیں وہاں سے میٹرو کا اسٹیشن منڈی ہاؤس بذریعہ رکشا صرف پانچ منٹ کا فاصلہ ہے' مجھے ایک دوست نے مشورہ دیا۔
آج سے دو دہائی ہہلے میں نے کلکتے کی میٹرو پر بھی سفر کیا تھا جبکہ اسکو شروع ہوئے چند مہینے ہی ہوئے تھے۔ دہلی کی میٹرو برصغیر کی دوسری زمین دوز ٹرین ہے لہٰذا میں بڑے شوق سے صبح اسٹیشن پہنچا۔ چاندنی چوک اسٹیشن کا ٹکٹ لیا، کاؤنٹر پر بیٹھی خاتون سے پوچھا کہ کیا ریل براہ راست چاندنی چوک پہنچے گی یا بدلنا پڑے گی؟ انہوں نے منہ سے کچھ نہ کہا میرے ہاتھ ہندی میں تحریر ریل کا نقشہ پکڑا دیا۔ میں نے جب کہا کہ مجھے انگریزی کا نقشہ دیجیے تو وہ جھٹ بولیں 'بھائی انگریزی میں بھی یہی سب کچھ ہے جو اس میں ہے۔ آپ یہ لے جائیے کیوں کہ میرے پاس انگریزی کا نقشہ صرف بدیسی لوگوں کے لیے ہے۔'
میں نے سوچا کہ ان سے کہہ دوں کہ میں بھی بدیسی ہوں اور ہندی نہیں پڑہ سکتا لیکن پھر خیال آیا کسی سے پوچھ لوں گا۔ پلیٹ فارم پر پہنچا تو پوچھنے کی نوبت ہی نا آئی۔ وہاں پر دیوار پر انگریزی زبان میں نقشہ آویزاں تھا۔ پتا چلا راجیو چوک پر ٹرین بدلنی ہوگی۔
گاڑی تو چمک رہی تھی، بالکل ایسے جیسے بیس سال پہلے کلکتے کی میٹرو چمکتی تھی۔ آخر یہ بھی تو نئی تھی۔ راجیو چوک پر میں نے ڈیجیٹل کیمرے سے تصویر لینا چاہی تو ایک ریلوے پولیس کے سپاہی نے مجھے روکا اور کہا 'چلو افسر کے پاس۔ یہاں پر تصویر لینا جرم ہے۔' میں دل میں گھبرایا کہ اگر اسکو میری قومیت کا پتا چل گیا تو میری مصیبت اجائے گی کیوں کہ چند ہی دن پہلے دہلی میں گنجان آباد جگہوں پر کئی بم پھٹے تھے اور میڈیا نے حسب معمول پاکستانیوں کو ذمہ دار ٹھرایا تھا۔
میں نے اپنے حواس برقرار رکھے اور افسر سے کہا 'مجھے اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہاں تصویر نہیں لینی چاہیئے۔ بہر حال اب آپ کے سامنے میں اس تصویر کو کیمرے سے خارج کردیتا ہوں' آدمی معقول تھا اس نے کہا آئندہ احتیاط کیجئے گا۔
اس اثناء میں وہ ٹرین آگئی جو چاندنی چوک جاتی تھی، میں جھٹ سوار ہوگیا۔ اور دونوں ٹرین کے مجموعی سفر اور راجیو چوک کے واقعے کو کل نو منٹ لگے۔
چاندنی چوک کے صاف ستھرے اسٹیشن سے اتر کر میں اس گلی میں داخل ہوا جو آگے جاکر پراٹھے والی گلی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس پتلی گلی میں جہاں سائیکل رکشہ بھی چلتے ہیں مجھے بے اختیار 'کھوے سے کھوا چھلنا' کا محاورہ یاد آیا۔ اپنے صوبے سندہ اور جنوبی پنجاب کے شاہی بازار یاد آگئے۔ خاص طور پر ٹنڈو اللہ یار کا شاہی بازار جہاں جب کوئی ٹانگا آتا تو راہ گیر دکانوں پر چڑھ جاتے تھے۔ خدا جانے آج وہاں کیا حال ہے۔
بالآخر بچتے بچاتے پراٹھے والی گلی پہنچ گیا، وہ گلی اور بھی تنگ تھی لیکن پراٹھوں کی مہک سے لبریز تھی۔ چند سالوں پہلے یہاں تیرہ پراٹھوں کی دکانیں تھیں لیکن زیورات اور خواتین کے لباس نے نو پراٹھے والوں کو منہ مانگے دام دیکر خرید لیا تھا۔ اب کل چار دکانیں رہ گئی تھیں، شاہد یہی وجہ ہے کہ دوپہر میں لوگوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے۔ یہ سب لوگ قریب کی دکانوں یا دفتروں میں کام کرتے ہیں، شام کو سنا ہے کہ لوگ دور دور سے پراٹھوں سے لطف اندوز ہونے بال بچوں کے ساتھ آتے ہیں۔
پراٹھوں کی تفصیلات انگریزی اور ہندی میں بورڈ پر تحریر تھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ہر دکان پر کئی قسم کے پراٹھے ملتے تھے۔ سادے پراٹھے، آلو کے پراٹھے، مونگ کی دال کے پراٹھے، مولی کے پراٹھے، پنیر پراٹھے وغیرہ۔
میں نے پوچھا کے کیا قیمے اور انڈے کے پراٹھے بھی ہیں تو جواب ملا کے آدھے میل دور جامع مسجد کے پاس ملتے ہیں۔
ایک دکان والے کو جب میں نے بتایا کہ میں کراچی سے آیا ہوں تو جھٹ بولے آپ ہمارے مہمان ہیں ہم آپ سے پیسے نہیں لیں گے۔ میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرا پیٹ اس قابل نہیں ہے کہ میں بازار کی کوئی چیز کھاؤں، حالانکہ میرے منہ میں پانی آرہا تھا۔
'ارے صاحب جی آپ چنتا نہ کریں۔ ہمارے پتا جی جنہوں نے یہ دکان کھولی تھی ایک پیر صاحب نے انہیں دعا دی تھی کہ جو تمہارے ہاں پراٹھے کھائے گا اسکا پیٹ اگر خراب ہوگا تو ٹھیک ہوجائے گا۔'
میں نے انکی خوشی کی خاطر ایک گرم گرم پراٹھا مزے لے لے کر کھایا۔ وہاں کے پراٹھے ہمارے پراٹھوں کی نسبت چھوٹے ہوتے ہیں اور تیل میں تلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ کرارے ہوتے ہیں۔
برابر کی میز پر ایک مزدور بیٹھا تھا، میں نے دیکھا کے اسکی پلیٹ میں دو سادے پراٹھے، تھوڑی سی بھجیا اور بہت تھوڑی سی چٹنی پڑی ہوئی تھی۔ 'ہم تو مجبوری میں یہ کھاتے ہیں۔ آج کل بیس روپے میں اور کہیں کچھ نہیں ملتا۔' اس نے کہا۔
وہاں سے اٹھنے کے بعد میں نے برابر والی دکان میں جھانکا، وہاں پر دیوار پر بڑے بڑے لوگوں کی پراٹھے کھاتے ہوئے تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ ایک تصویر پنڈت جواہر لال نہرو کی اپنی بیٹی اندرا گاندھی کے ساتھ تھی، ایک لال بہادر شاستری کے ساتھ تھی۔ بیچ میں پنڈت گیا پرساد تھے۔ یہ تصویریں انہی کے دور کی تھیں۔ انکے بیٹے کو، جن کا نام میں بھول رہا ہوں، اس بات کا افسوس تھا کہ ہندوستان کے صدر ابوالکلام، جن کے وہ مداح تھے، کبھی پراٹھے کھانے انکی دکان پر نہیں آئے۔
جب چاوری بازار کے میٹرو اسٹیشن کی طرف نکلا تو دیکھا کے ہر دکان کے باہر خواہ وہ کپڑوں کی ہو یا کھانے پینے کی مالک کی ایک یا دو موٹر سایئکل کھڑی تھیں جس سے گلی اور تنگ ہوگئی تھی۔
ابھی میں یہ نوٹ کر ہی رہا تھا کہ ایک سائیکل رکشہ والا غصے سے مجھ سے مخاطب ہوا 'بھائی سایئڈ پر چلو!'
میں نے کہا، 'بھائی صاحب یہاں پر سائیڈ تو نظر ہی نہیں آتی، آخر چلیں تو کہاں چلیں۔'
اسکا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوگیا۔ اگر اس رکشہ میں جگہ ہوتی تو میں اسی میں بیٹھ جاتا۔ آگے گیا تو دیکھا کہ رکشہ بھیڑ میں پھنسا ہوا تھا۔ میں آگے نکل گیا۔
آصف نورانی کراچی میں ایک صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔
آصف نورانی ایک سینئر صحافی ہیں جو فنون لطیفہ، ادب اور سفر نگاری کے ماہر ہیں۔ ان کی تحریروں میں مزاح کا عنصر پایا جاتا ہے۔ انہوں نے چار کتابیں لکھیں جن میں سے دو باہر کے ناشروں نے چھاپیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔