نقطہ نظر

بائیں جانب ایک چھوٹا سا قدم

صرف بائیں بازو کی تنظیمیں ہی پاکستان میں نسلی اور فرقہ واری تقسیم کی بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹ سکتی ہیں

سو مزدوروں کی ہولناک ہلاکتوں کو واقع ہوۓ ابھی بمشکل دو مہینے گزرے ہیں- اس دن جو کچھ بھی ہوا اور ہم میں سے بہت سوں نے اس ہولناک واقعہ کو ٹی وی سکرین پر دیکھا لیکن جیسا کہ توقع تھی ہم میں سے بیشتر تو اس واقعہ کو بھول بھال چکے ہیں.

گرچہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ مرنے والوں کے اہل خاندان اور دوست اس واقعہ کو بھولے نہیں ہیں اور نہ ہی وہ مزدور جو اس وقت وہاں موجود تھے لیکن زندہ بچ گئے (خواہ ہمیشہ کے لئے معذور ہی کیوں نہ ہو گئے ہوں)

یہ بات کہ ٹی وی اینکروں ، کالم نگاروں اور "سول سوسایٹی" کی قسم کے لوگوں نیز سیاست دانوں نے اتنا جلد اس واقعہ کو بھلا دیا ہمارے اجتماعی ضمیر پر ایک دھبہ ہے- آجکل جن تبدیلیوں کی باتیں ہو رہی ہیں، ان سینکڑوں ہزاروں محنت کشوں کی زندگی میں بہت کم تبدیلی آئی ہے جو روزانہ کی اجرت پر کسمپرسی کے حالات میں دن رات محنت کر رہے ہیں.

یہی وجہ ہے کہ کراچی اور لاہور میں ہونے والے ان ہولناک واقعات نے ہمیں تحریک دی  کہ ہم ان واقعات کا جائزہ لیں اور اس بدتر صورت حال کو درست کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی قدم اٹھائیں.

دیانت داری سے کام لیتے ہوئے میں یہ کہونگا کہ جس تساہل کا مظاہرہ ہوا وہ اتنا حیرت انگیز بھی نہیں تھا- تقریبا تین دہائیاں گزر چکی ہیں کہ مزدور طبقہ اور اس کے مفادات کسی معنی خیز انداز میں حکومت کی پالیسی کا حصہ بنے ہوں- اس دور کے دانشوروں اور سیاست دانوں کے رجحانات میں بھی دائیں بازو کی جانب متواتر جھکاؤ  نظر آتا ہے چنانچہ پالیسی سازوں اور رائے عامہ کو تشکیل دینے والوں سے بھی یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ آتش زدگی کے واقعہ کے نتیجے میں مزدور طبقہ کے نظریہ دانوں کی حیثیت سے سامنے آئینگے.

تاہم انھیں چاہئے کہ وہ پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے مختلف سماجی طبقات کی نوعیت کی جانب مزید توجہ دیں- طبقاتی تقسیم اور ان کی تشکیل کے اہم سیاسی، سماجی اور معاشی نتائج برآمد ہوتے ہیں خواہ بہ حیثیت مجموعی  سیاسی عمل کی روش اور مقصد کچھ ہی کیوں نہ ہو.

المناک حقیقت یہ ہے کہ بڑے شہروں کے صنعتی مزدوروں کی حالت اتنی بری نہیں ہوتی جتنا کہ محنت کش عوام کی اکثریت کی ہوتی ہے خاص طور پر جنکا تعلق دیہی پرولتاریہ کے نسبتا نئے طبقہ سے ہوتا ہے-

گزشتہ چند دہائیوں میں مشینوں کے استعمال، زرعی اراضی کی تقسیم در تقسیم اور دیگر بہت سے معروضی عوامل زرعی معیشت میں تعلقات کی تبدیلی کا باعث بنے ہیں اور فصل میں حصہ بٹانے والے کسانوں کی بڑی تعداد آہستہ آہستہ زرعی مزدوروں کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے.

بالفاظ دیگر، بے زمین کسان جو عرصۂ دراز سے اپنی زمینوں سے جڑے ہوئے تھے اوروہ بھی جواس کے مالک تھے اب اپنے تاریخی پیشے سے دور ہوتے جارہے ہیں اور انھیں بھی شہروں کی طرح اجرتی مزدوروں کے طور پر کام کرنا پڑ رہا ہے. اس طبقے کی حمایت میں سیاسی ہلچل تو دور کی بات ہے نظریاتی فکر و نظر بھی بہت کم نظر آتی ہے- جو حکایتیں اور واقعات بیان کے جاتے ہیں ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ "یہ دبا ہوا طبقہ" جرائم پیشہ ٹولیوں کا مہرہ ہے جو ہمارے دیہاتوں کو گندہ کر رہے ہیں.

شہروں میں بھی فیکٹریوں کے باہر (جو بجائے خود بیسویں صدی کے سرمایہ دارانہ نظام کی علامت ہیں) طبقاتی جبرواستبداد میں کمی کے بجائے شدّت بڑھتی جا رہی ہے.

اپنے گھروں سے اجرت پر کام کرنے کا طریقہ عام ہوتا جا رہا ہے خاص طور پر عورتوں میں جو سب کونٹریکٹروں  کے ہاتھوں شدید استحصال کا شکار ہوتی ہیں اور خود کارخانے بھی کم اجرت دیکر ان کا استحصال کرتے ہیں.

جو لوگ گھر سے باہر کام کرتے ہیں وہ بھی مالکان کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں یا اگر وہ خود بھی نجی کام کرتے ہوں تو انھیں دن رات خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے تاکہ جب کام کا دن ختم ہو جائے تو وہ اتنا کما لیں کہ گزر بسر کے لئے کافی ہو.

بلاشبہ سرمایہ دارانہ نظام کے پرکشش ہونے کی بھی ایک وجہ ہے- نیو لبرل ازم کے اس دور میں طبقاتی عدم مساوات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ "متوسط طبقہ" میں شامل ہو رہے ہیں.

وہ لوگ جو کسی زمانے میں مزدور تھے --اردو محاورے کے مطابق-- "صاحب ملکیت" بن گئے ہیں- بورژوا ئی طرز زندگی کی کشش کیبل ٹی وی، سیل فون اور بہ حیثیت مجموعی سرماۓ کی نقل وحرکت کے نتیجے میں بڑھتی جا رہی ہے- یہی وجہ ہے کہ سرمایہ داری اپنے پیچھے جو اذیت ناک مسائل چھوڑ جاتی ہے وہ صرف اسی حد تک دکھائی دیتے ہیں جہاں تک ہماری نظر پہنچتی ہے.

اسی رجحان کے نتیجے میں اس ملک میں سرمایہ داری کی جدید لہر جس انداز میں رونما ہوئی ہے اس کی سب سے اہم وجہ مزدور طبقہ کی تحریک کی کمزوری ہے.

معاشرے کی ہر سطح پر خواہ وہ نظریاتی میدان سے متعلق ہویا سیاسی عمل سے، محنت کش طبقہ پسپائی کی حالت میں گھرا ہوا ہے (1970 کے اواخر سے یہی صورت حال موجود ہے)

اگر میڈیا اور سیاست داں وغیرہ محنت کش طبقہ کی حالت سے نابلد ہیں تو اس کا سبب یہ ہے کہ گزشتہ دو دھائیوں سے بائیں بازو کا رجحان رکھنے والی کوئی منظم تحریک موجود نہیں جو محنت کش عوام کو حرکت میں لاتی اور قومی سیاسی دھارے پر اثر انداز ہوتی.

ان مایوس کن حالات کے تناظر میں میں آپکی توجہ ایک اہم سیاسی اتحاد کی جانب دلانا چاہتا ہوں- بائیں بازو کا رجحان رکھنے والی تین موجودہ تنظیمیں ضم ہوکر ایک نئی سیاسی پارٹی تشکیل دے رہی ہیں جن کا مطمح نظرمزدور طبقہ کی سیاست کی پرانی روایات کو بحال کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ فوری طور پر ایک قابل عمل سوشلسٹ نظام کی تعمیر کے لئے کام کرنا ہے.

ماضی میں بھی اس قسم کے اتحاد قائم ہوتے رہے ہیں اورغالبا مستقبل میں بھی جاری رہینگے- اس کی ایک ضمنی وجہ یہ تھی کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بائیں بازو کی تنظیمیں شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی تھیں- چنانچہ فطری طور پر بائیں بازو کی تنظیموں کی بحالی، کم سے کم جزوی طور پر اسی طرح ممکن ہے کہ یہ منتشر تنظیمیں ایک دوسرے میں ضم ہو جائیں-

ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی بائیں بازو کی تنظیمیں جو طویل عرصے سے مصائب کا شکار ہیں اور الزامات کی زد میں ہیں کیفیتی لحاظ سے کسی نئی شکل میں سامنے آئیں- کیونکہ موجودہ حالات کو ختم کرکے اگر کوئی معنی خیز تبدیلی لانی ہے تو ضروری ہے کہ بائیں بازو کی .تنظیمیں نوجوانوں کو راغب کریں کہ وہ انکی صفوں میں شامل ہوں جسکی علامتیں نظر آنے لگی ہیں.

پاکستان کی تقریبا دو تہائی آبادی تیئس سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے- علاوہ ازیں کسی بھی نئی سیاسی تنظم کے لئے ضروری ہے کہ خود کو مسلسل حرکت میں رکھے- نئے امیدوار جب پارٹی کے رکن بنتے ہیں تو اپنے ساتھ نئے نظریات اور نئی توانائی لاتے ہیں جن کی توقع پرانے کارکنوں سے بہرحال نہیں کی جاسکتی

نوجوانوں اور بائیں بازو کے رجحانات رکھنے والے تجربہ کار افراد دونوں ہی کو چیلنج کا سامنا ہوگا کہ وہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد کی دنیا میں ڈرامائی طور پر رونما ہونے والے معروضی حقایق کو قبول کریں، پاکستانی معاشرے میں موجود تضادات کے بارے میں مسلسل آگہی حاصل کریں اور اسے سمجھیں (نہ کہ بالشویک یا ماؤ کے ساتھیوں کی مدح سرائی کرتے رہیں) اور پھر ایک ایسی طرز سیاست کی تشکیل کریں جس سے جمہوری عمل مضبوط ہو اور ساتھ ہی اس کے کھوکھلے نعروں کی حوصلہ شکنی ہو .

میرا یہ بھی یقیں ہے کہ صرف بائیں بازو کی تنظیمیں ہی نسلی تقسیم کی بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹ سکتی ہیں جو ہمارے معاشرے کے تارو پود کو نقصان پہنچا رہی ہیں .

قومی سطح کے سیاست دان اب بھی ملک کے کثیرالقومی کردار کو تسلیم کرنے اور نام نہاد "نظریہ پاکستان" کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہیں جو ہمارے وجود کے لئے مہلک ثابت ہو رہا ہے.

مارکس نے تقریبا ڈیڑھ سو سال پہلے کمیونزم کے ممکنہ امکانات کے بارے میں لکھا تھا- اس سے پہلے کہ بایاں بازو پاکستان اور باقی دنیا میں ریاست اور سرمایہ کے لئے ایک بار پھر خطرہ بن جائے ابھی کچھ راستے باقی ہیں- کیا اس قسم کا اتحاد اس سمت میں ایک چھوٹا قدم ہوگا؟


اس مضمون کے مصنف قائد آعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں

ترجمہ: سیدہ صالحہ

عاصم سجاد اختر

لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔