پشاور: امریکہ ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد تسلیم کرتا ہے اور اگر افغانستان اس حوالے سے کوئی دوسری تشریح کرتا ہے تو وہ اُس کا اپنا معاملہ ہے۔
یہ بات پاکستان میں امریکہ کے نائب چیف آف مشن رچرڈ ہوگلینڈ نے جمعرات کو پشاور میں صحافیوں سے خصوصی ملاقات کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہی۔
امریکہ کے پاکستان اور افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی مارک گراسمین کے ڈیورنڈ لائن پر بیان کے بعد کابل نے سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا کیونکہ افغانستان طویل عرصہ سے اس معاملے کو متنازعہ اور غیر حل شدہ سمجھتا ہے۔
ڈیورنڈ لائن کا نام برطانوی ہندوستان کے سیکریٹری خارجہ مارتیمر ڈیورنڈ سے منسوب ہے، جنہوں نے 1893 میں افغانستان کے امیر عبد الرحمان خان سے ایک معاہدے کے بعد تقریباً ڈھائی ہزار کلو میٹر طویل اور غیر محفوظ سرحد کی حد بندی کی تھی۔
آزادی سے قبل برطانوی ہندوستان کا حصہ ہونے کی وجہ سے یہ معاہدہ پاکستان کو وراثت میں ملا جبکہ افغانستان کے مطابق اس معاہدے کو اس پر زبردستی لاگو کیا گیا۔
افغانوں کا کہنا ہے کہ ایک صفحہ پر انگریزی زبان میں لکھی گئی سات شقوں پر مشتمل معاہدہ کو مرحوم امیر عبد الرحمان خان نہ تو پڑھ پائے اور نہ ہی سمجھ سکے۔
دوسری جانب، پاکستان کا موقف ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحد ایک حل شدہ معاملہ ہے، جس پر بحث کی گنجائش نہیں۔
امریکی سفارت کار ہوگلینڈ کے مطابق ' یہ کوئی لائن آف کنٹرول نہیں ہے، اسے کافی عرصہ قبل ہی بین القوامی سرحد کے طور پر تسیلم کیا جا چکا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ افغانستان کا اس معاملے پر موقف مختلف ہے اور وہ اپنے موقف کی توجیح پیش کرنے کا حق رکھتے ہیں'۔
پاک –امریکہ تعلقات
ملاقات کے دوران سفارت کار نے گراسمین کے حالیہ پاکستان دورے کے حوالے سے بتایا کہ گراسمین اس دورے کوبہترین قرار دیتے ہیں۔ وہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر اور فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ملاقاتوں کو ' بہت اچھا' تصور کرتے ہیں۔
'ان ملاقاتوں میں دونوں جانب سے مذاکارات ہوئے۔ ایسا نہیں تھا کہ پہلے ایک جانب سے بات کی گئی، پھر دوسری جانب سے اور بعد میں شکریہ اورخدا حافظ کے ساتھ ملاقات ختم'۔
ہوگلینڈ نے گراسمین کے حوالے سے بتایا کہ راولپنڈی میں ان کی جنرل کیانی سے ملاقات بہت مثبت تھی اور دونوں ملک یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے مشترکہ مفاد کیا ہیں اور کن چیزوں پر مل کر کام کرنے سے دونوں ملکوں اور ان کی عوام کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان دہشت گردوں سے لڑائی کی اہمیت سمجتھا ہے اور امریکہ اس حوالے سے پاکستان کی مدد کرنا چاہتا ہے۔
سفارت کار نے کہا کہ 'ہم جتنا جلدی دہشت گردوں کو روکیں گے، انہیں شکست دیں گے، اتنا ہی جلدی یہ خطہ زیادہ پر امن بنے گا'۔
انہوں نے 2011 کو پاک –امریکہ تعلقات کے حوالے سے ایک مشکل سال تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ 2012 کے پہلے حصے میں باہمی تعلقات کے حوالے سے 'بہت زیادہ فیصلے' سامنے نہیں آ سکے۔
انہوں نے بتایا کہ اس دوران پس پردہ سویلین – سفارتی، عسکری – عسکری اور دونوں ملکوں کے خفیہ اداروں کے تعلقات پر بات چیت جاری رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک مشکل وقت سے گزرے ہیں اور اب دونوں جانب سے تعلقات کی بحالی کا عمل دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
' جو تعلقات اب وجود میں آئیں گے وہ تھوڑے محدود لیکن پختہ نوعیت کے ہوں گے جو کہ اچھی بات ہے۔ اچھی اس لیے کہ اب ہم ان شعبوں کو شناخت کریں گے جہاں مل کر کام کرنے میں دونوں ملکوں کے مفادات وابستہ ہوں گے'۔
ڈرون حملے
ملاقات کے دوران ہوگلینڈ نےڈرون حملوں پر 'آن دا رکارڈ' بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس معاملے پر بات چیت کریں۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر دونوں ملک مل کر کام کرنے کو یقینی بنانے کے لیے بہترین ممکنہ طریقے کی تلاش میں ہیں ۔
ہوگلینڈ نے تنقید نگاروں کی جانب سے ڈرون حملوں میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا جانے کے الزام کوبھی مسترد کیا۔
عمران خان
امریکی سفارت کار نے عمران خان کو ٹورانٹو میں ہوائی جہاز سے نیچے اتارے جانے کی تردید کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ پی ٹی آئی سربراہ کو طیارے پر سوار نہیں ہونے دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی امیگریشن نے عوامی بیانات یا پھر سیاسی عقائد کی بنیاد پر کبھی بھی کسی کو نہیں روکا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مقاصد کے لیے اس واقعہ سے جڑی بہت سے کہانایاں سامنے آئیں جو غلط تھیں۔
انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ عمران خان کو روکنے کی وجہ ان کا ویزہ اسٹیٹس تھا جو انہیں امریکہ میں پارٹی کے لیے چندہ جمع کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ہوگلینڈ نے رازداری سے متعلق امریکی قوانین کی بنیاد پرعمران خان کو روکے جانے کی وجوہات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ عمران خان کو خوش آمدید کہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو روکا جانا ایک معمول کا عمل تھا اور اس عمل سے گزرنے کے بعد انہیں پہلی دستیاب فلئیٹ سے روانہ ہونے کی اجازت دے دی گئی۔
غلام احمد بلور
جب سفارت کار سے پوچھا گیا کہ آیا امریکہ بھی برطانیہ کی طرح توہین آمیز فلم ساز کے سر کی قیمت مقرر کرنے پر پاکستانی وزیر غلام احمد بلور پر پابندی عائد کرے گا تو ان کا کہنا تھا کہ ' ہم صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور آئندہ چند دنوں میں ہم فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکیں گے'۔