نقطہ نظر

بریکنگ نیوز: کتوں کی جانب سے ٹارگٹ کلنگ

آج میری جان لینے کے لئے مجھ پر حملہ ہوا ہے۔ میں نے کلنٹن تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔

آج میری جان لینے کے لئے مجھ پر حملہ ہوا ہے ۔ میں نے کلنٹن تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی ہے۔

اے: رپورٹ نمبر؛

PPC-1836

بی: رپورٹ کا دن اور وقت ؛

انتیس اکتوبر دوہزار بارہ، صبح دس بجے

سی: شکایت کندہ کا نام اور پتا؛

وقار احمد، سیونتھ ہیون اپارٹمنٹس، کلنٹن کراچی

ڈی: جرم پر لاگو ہونے والی دفعہ؛

PPC 324(اقدامِ قتل)

 ای: جائے واردات؛

سی ویو ساحل، کلنٹن، کراچی

 ایف: ملزمان کا نام، اگر معلوم ہو یا نام مشتبہ؛

 کتے: ایک مادہ تین نر، نام نامعلوم

انسان: نام نامعلوم

رپورٹ: ( مطابق ایس ایچ اور تھانہ کلنٹن)

شکایت کرنے والا شخص بہت قابلِ رحم اور پریشان کن حالت میں تھانے میں حاضر ہوا۔ اس کے کپڑے ریت سے اٹے ہوئے تھے ۔ اسے بات کرنے میں مشکل کا سامنا تھا کیونکہ اس کا منہ ریت سے بھرا ہوا تھا اور وہ بار بار ریت تھوک رہا تھا۔

وہ پریشان تھا اور سانس لیتے دوران بُرا بھلا کہہ رہا تھا۔ اس کا کرتا تار تار ہوچکا تھا۔ چونکہ وہ اپنے ظاہری انداز سے واضح طور پر سماج مخالف عنصر دکھائی دے رہا تھا اسی لئے اسے عوامی قانون متاثر کرنے اور مغلظات بکنے ( پی پی سی کی دفعات پانچ سو جھبیس اور پانچ سو چھ )۔ تلاشی پر اس سے ایک ٹیوب برآمد ہوئی جو دھماکہ خیز مادے (نائٹروگلیسرین) سے بھری ہوئی تھی۔ اسی لئے اس پر مقدمات کی فہرست میں دہشگردی کا الزام بھی شامل کردیا گیا۔

اس موقع پر آئی بی، ایم آئی اور آئی ایس آئی کو فوری طور پر آگاہ کیا گیا ۔

انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جوائنٹ ٹیم کی جانب سے بھرپور تفتیش کے بعد معلوم ہوا کہ وہ جزوقتی صحافی اور فوٹوگرافر ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ کوئی مجرم نہیں بلکہ خود ایک قاتلانہ حملے کا شکار ہے۔ نائٹروگلیسرین ٹیوب دراصل ایک انہیلر ہے جو وہ ہنگامی حالت میں استعمال کرتا ہے کیونکہ وہ دل کا مریض ہے۔

رپورٹ درج کرانے والے (جسے ہم اس کی عمر کے لحاظ سے انکل ہی کہیں گے) کہ مطابق وہ معمول کے تحت صبح سی ویو پر واک کررہے تھے کہ انہوں نے بغلی پارک کی جالی پر ایک نوٹس دیکھا جس میں ان چار گروہوں کے نام درج تھے جو مرنے کے بعد ڈائریکٹ دوزخ میں جائیں گے اور ان میں سے ایک نام فوٹوگرافر کا بھی تھا۔

اس نے وارننگ پر دھیان نہیں دیا اور مسلسل ساحل کی جانب رخ کئے رکھا اور چہل قدمی کرتے ہوئے تصاویر بھی اُتارتا رہا۔  پھر اچانک، اس نے کتّوں کے ایک گروہ کی بھونکنے کی  آوازیں سنیں جو پوری تیزی سے اُس کی جانب بڑھے آرہے تھے۔ چونکہ عوامی مقامات پر پائے جانے والے کتے عموماً ڈرپوک ہوا کرتے ہیں لہٰذا اس نے کتوں کو ہش کرکے دور بھگانے کی کوشش کی لیکن اس سے کام نہیں بنا اور ایک کتیا کی قیادت میں سارے کتے اسی کی جانب دوڑنے لگے۔ اس نے دھات کا ایک ٹکڑا اُٹھایا ( جو بدقسمتی سے ایک پینٹ شدہ فوم کا ٹکڑا نکلا) لیکن وہ بھی کام نہ آسکا۔

جب کوئی راستہ نظر نہ آیا تو اس نے وہاں سے بھاگنے کی کوشش کی۔ اپنی فتح کو محسوس کرتے ہوئے حملہ آور اس پر پِل پڑے اور اس کا عمدہ کھادی کا کرتا دھجیوں میں بدل دیا۔ وہ سیدھا منہ کے بل گرا اور اس کا کیمرہ ریت میں کہں گرگیا۔

اس سے قبل اس کی عینک اور موبائل فون بھی ساحل پر کہیں گرگئے جبکہ موبائل فون ٹوٹ کر دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ حملہ آور کتوں کی ٹیم نے اس پرمزید حملہ نہیں کیا جس کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی یا غالباً وہ قریبی کچرے کے ڈبوں سے بقرعید پر بچ چانے والے گوشت سے اپنا پیٹ بھر چکے تھے ۔

اُس نے اپنے جسم کے تمام حصوں کو چیک کیا اور انہیں اپنی جگہ پاکر دھیرے دھیرے اُٹھ کھڑا ہوا اور ریت میں دھنسی ہوئی اپنی اشیا سمیٹی اور واپسی کی راہ لیتے ہوئے تھانے آیا۔

اس کا اصرار ہے کہ یہ فوٹوگرافر کے خلاف ٹارگٹ کلنگ کا ایک کیس ہے اور کتے ان شدت پسندوں کی کنٹرول اور کمانڈ میں ہیں جنہوں نے وہاں وارننگ کے جملے لکھے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ ایک دن  قبل ایک مولوی نے گھروں میں تصویر لگانے کیخلاف خطبہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اُس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے جہاں انسان یا جانور کی تصویر لگی ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تصویر سے نفرت کرنے والے مولویوں کے ایک منظم گروہ نے ہی یہ خفیہ گروپ بنایا ہے تاکہ فوٹوگرافرز کو ختم کیا جاسکے۔

انکل نے یہ بھی کہا کہ جائے واردات کے پاس ایک جوتا بھی موجود تھا جو شاید اس سے قبل کے شکار کا ہوسکتا ہے۔

وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر اس معاملے پر دو دن میں ایکشن نہیں لیا گیا تو وہ سپریم کورٹ سے اس کیس پر سوموٹو کی درخواست کریں گے۔

شکایت کرنے والے نے مطالبہ کیا ہے کہ اگلی مرتبہ ساحل پر واک کے دوران اس کے ساتھ  مسلح گارڈز، ایک ایمرجنسی موبائل ایمبیولینس اور کے ایم سی کے کتا پکڑنے والے افراد بھی دیے جائیں۔

دستخط:  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ریکارڈر: چوہدری کرم داد، ایس ایچ او   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکایت کندہ: وقار احمد عرف انکل     ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


وقار احمد
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔