اسلام آباد: گزشتہ دس سالوں میں کالعدم جماعت حزب التحریر پاکستان فوج میں سرایت کرنے کی اب تک تین کوششیں کر چکی ہے۔
حال ہی میں بریگیڈئیر علی خان اور ان کے چار ساتھی فوجی افسروں کو اس جماعت کے ساتھ روابط پر سزائیں دی گئی ہیں۔
تین اگست کو ایک فوجی عدالت نے بریگیڈئیر علی، میجر سہیل اکبر، میجر جواد بشیر، میجر عنایت عزیز اور میجر افتخار کو حزب التحریر سے تعلق ثابت ہونے پر پانچ سال سے اٹھارہ ماہ تک قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔
دو ہزار تین میں اس جماعت نے فوج کے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) کے تیرہ کمانڈوز سے رابطے قائم کیے تھے۔
دو ہزار نو میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے تک کے فوجی افسران کو اس جماعت سے تعلقات کی وجہ سے کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دو ہزار نو اور گیارہ میں فوجی افسران سے رابطہ کرنے والے حزب التحریر کے ایک ہی کارکن تھے۔
فوجی حکام کی جانب سے ان افسران کے خلاف کورٹ مارشل کا عمل شروع کیے جانے کے باوجود ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی سامنے نہیں آئی۔
ڈان کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق، حزب التحریر کے رکن عبدالقدیر اور ڈاکڑ احمد نے دوہزار نو میں کرنل شاہد بشیر اور دو ہزار گیارہ میں بریگیڈئیرعلی سے رابطے کیے تھے۔
ان دستاویزات سے انکشاف ہوتا ہے کہ کالعدم جماعت کے اِن دونوں کارکنوں نے کرنل شاہد اور بریگیڈئیر علی سے رابطہ قائم کرنے کے لیے ایک ہی طریقہ استعمال کیا تھا۔
دونوں فوجی افسران سے رابطہ قائم کرنے کے لیے مشترکہ دوستوں کا سہارا لیا گیا اور بعد ازاں انہی دونوں افسران کے ذریعے دیگر فوجی افسران سے بات چیت بڑھائی گئی تھی۔
خصوصی تفتیشی برانچ ( ایس آئی بی) کے میجر کاشف سلیم کی تیار کردہ ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بریگیڈئیر علی اپنے ساتھی افسروں کے ساتھ مل کر سویلین اور فوجی قیادت کو ایک ہوائی حملے میں ہٹانے کے بعد ملک میں نظامِ خلافت کے قیام کے لیےراہ ہموار کرنے کی سازش کر رہے تھے۔
اس رپورٹ کے مطابق، حزب التحریر کے عبدالقادر، احمد اور رضوان بریگیڈئیر علی سے ملے اور انہیں سازش تیار کرنے کی ترغیب دی۔
بریگیڈئیر علی نے اس حوالے سے بعد ازاں دوسرے فوجی افسران بریگیڈئیر نعیم صادق، بریگیڈئیر محمد امین اور بریگیڈئیر عامر ریاض سے رابطے کیے۔
لیفٹیننٹ کرنل شاہد بشیر کے خلاف تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق عبدالقدیر اور ڈاکٹر احمد (جن کا اصل نام معلوم نہ ہو سکا) ہی کرنل بشیر اور ایک دوسرے لیفٹیننٹ کرنل کے کورٹ مارشل کے ذمہ دار تھے۔
کرنل بشیر پر الزام ہے کہ انہوں نے ملک میں موجود ڈرون حملوں کے لیے امریکہ کے زیر استعمال ائیر بیسزکے بارے میں انتہائی خفیہ معلومات حاصل کی تھیں۔
ان پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ مالاکنڈ میں جاری فوجی آپریشن اور دوسرے علاقوں میں تعینات فوج کے حوالے سے بھی معلومات لے رہے تھے۔
کرنل بشیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے لیفٹیننٹ کرنل حبیب اللہ سمیت نو دیگر فوجی افسروں کو ترغیب دی تھی کہ وہ ان کی کوششوں میں ان کا ساتھ دیں۔
دو ہزار نو میں فوج کی قانونی شاخ میں بطور جج ایڈوکیٹ جنرل فرائض سر انجام دینے والے بریگیڈئیر (ر) واصف خان نے بتایا کہ انہوں نے پہلی مرتبہ حزب التحریر کے کارکنوں عبدالقادر اور ڈاکٹر احمد کے نام کرنل بشیر کے خلاف کورٹ مارشل کی سماعت کے دوارن سنے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب بریگیڈیئر علی اور چار میجروں نے ان سے اپنی وکالت کے لیے رابطہ کیا تو انہیں یہ جان کر حیرت ہوئی تھی کہ اس کیس میں بھی کالعدم جماعت کے وہی دونوں کارکن ملوث تھے۔
بریگیڈئیر (ر) واصف نے بتایا کہ انہوں نے فوجی عدالت کے پریزائیڈنگ افسر کو ایک درخواست کے ذریعے ان دونوں کارکنوں کی گرفتاری کی گزارش کی تھی کیونکہ یہ لوگ فوج کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اس کے افسروں کو بھی ذہنی طور پر آلودہ کر رہے تھے، تاہم حکام نے ان کی درخواست قبول نہیں کی۔
جیگ برانچ کے ایک اور سابق افسر نے ڈان کو بتایا کہ دو ہزار تین میں حزب التحریر نے فوج میں داخل ہونے کی کوشش کی اور ایس ایس جی کے تیرہ کمانڈوز کو اپنے جال میں پھنسانے میں کامیاب رہی۔
انہوں نے بتایا کہ اس زمانے میں اس جماعت کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا تھا لیکن جب فوج کو اس کی کوششوں کے بارے میں معلوم ہوا تو اس وقت کے صدر اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نومبر دو ہزار تین میں اسے کالعدم قرار دے دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اُس وقت فوج نے ان کمانڈوز کے خلاف کورٹ مارشل کرنے سے گریز کرتے ہوئے صرف انتظامی کارروائی پر اکتفا کیا اور انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ فوجی حکام ماضی میں اس جماعت کے کارکنوں کے خلاف بھی کارروائی میں ناکام رہی۔
گزشتہ سال جولائی میں بریگیڈئیر علی کی گرفتاری کے فوراً بعد آئی ایس آئی اور ایم آئی نے ملک بھر سے حزب التحریر کے بعض انتہائی سرگرم کارکنوں کو اٹھا لیا تھا۔
ان کارکنوں میں سے عمران یوسف زئی، حیان داوڑ خان، اسامہ حنیف، ڈاکٹر عبد القیوم، ڈاکٹر عبدالوحید اور ڈاکٹر عبدالواجد کچھ عرصے تک لاپتہ رہے۔
بعد ازاں اُن کے رشتہ داروں نے گزشتہ سال جولائی اور اگست میں اُن کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی دائر کی تھیں۔
جس پر عدالت نے یہ معاملہ بارہ اکتوبر کو جبری گمشدگیوں کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو بھجوا دیا تھا۔
بعد ازاں، ڈاکٹر واجد کو اگست میں، حیان کو ستمبر ، اسامہ حنیف اور عمران یوسف زئی کو دسمبر دو ہزار گیارہ جبکہ ڈاکٹر قیوم اور ڈاکٹر واحد کو رواں سال اپریل میں چھوڑ دیا گیا۔
ڈان کے نمائندے نے اس معاملے پر جب فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بریگیڈئیر عتیق سے رابطہ کیا تو ان کے کہنے پر سوالات کو بذریعہ ای میل بھیجا گیا۔
تاہم اس رپورٹ کی اشاعت تک اُن کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آ سکا۔