نقطہ نظر

ریشمی پھل

ریشم ایک شہزادی کی دریافت ہے اور اس کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی اسی کا سکھایا ہوا ہے شاید اسی لئے ریشم صرف امرأ ہی کا پہناوا ہے۔

ایک قدیم چینی کہانی کے مطابق شہزادی ژی لنگ شی ایک گھنے درخت کے نیچے بیٹھی شام کی چائے سے لطف اندوز ہو رہی تھی کے اچانک ایک چھوٹی سی گول چیز درخت سے اس کی چائے میں آگری، شہزادی نے دیکھا کہ ایک مہین سا دھاگہ اس سے نکلا، شہزادی ژی لنگ شی نے اسے اپنی انگلی پر لپیٹنا شروع کیا ، دھاگے کے آخر میں ایک کوکون نظر آیا۔ دھاگے کی عمدگی اور نفاست سے متاثر شہزادی نے اس سارے عمل کو سمجھا اور دوسروں  کو بھی سمجھایا۔

آج بھی کوکون سے ریشم حاصل کرنے کا وہی طریقہ رائج ہے جو ہزاروں  سال پہلے شہزادی ژی لنگ شی نے اتفاقاً دریافت کیا تھا۔ بس اتنی تبدیلی کی گئی ہے کہ گرم چائے کی بجائے گرم پانی استعمال کیا جاتا ہے۔

ریشم ایک شہزادی کی دریافت ہے اور اس کو حاصل کرنے کا طریقہ بھی اسی کا سکھایا ہوا ہے شاید اسی لئے ریشم صرف امرأ  ہی کا پہناوا ہے۔

چونکہ یہ ایک قدرتی عمل سے حاصل ہوتا ہے لہذا اس کی رسد ہمیشہ اس کی طلب سے کم ہی رہتی ہے اور یہ ہمیشہ ہی مہنگا فروخت ہوتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ریشم صرف امرأ ہی کے کام آئے،جہاں وہ امرأ کی آسائیش کا سامان ہوتا ہے وہیں محنت کشوں کے لئے روزگار مہیا کرتاہے۔

صدیوں تک ریشم کا حصول ایک چینی راز رہا اور اس کی تجارت پر انہی کی اجاراداری قائم رہی۔ پھر ایک بدھ بھکشو ایک کھوکھلی چھڑی میں ریشم کے چند کیڑے ڈال کر چین سے باہر لانے میں کامیاب ہوگیا اور اس نے یہ راز یورپ کو بیچ ڈالا۔

اس طرح "توت" جو شمالی چین کا ایک مقامی درخت تھا ریشم کے حصول کے لئے پوری دنیا میں  کاشت ہونے لگا۔

آج پوری دنیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں اس کی کاشت کی کوشش نہ کی گئی ہو۔ امریکہ میں بھی جہاں ‘‘توت’’ ایک غیر مقامی اور بڑھوتری کےجارحانہ رجحانات رکھنے والا درخت شمار ہوتا ہے، بڑے پیمانے پر کاشت کیا جاتا ہے۔

ریشم کے حصول کے لئے توت کی باقاعدہ کاشت گزشتہ چار ہزار برس سے جاری ہے اور کاشت کرنے والے ممالک اور ان کے زیرکاشت رقبے میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔

ریشم کی تجارت میں چین آج بھی شیر کا حصہ وصول کر رہا ہے اور کرے بھی کیوں نہ ، ہر پل بدلتی دنیا کے ہر روز بدلتے معیار اور بڑھتی طلب سے قدم ملا کر چلنا، مسلسل تحقیق اور وسائل کا متقاضی ہے، اور چین اس معیار پر پورا اترتاہے۔

صنعتی ترقی اور مشینوں میں بہتری لانے کے ساتھ ساتھ ایک بڑے رقبے پر توت کی کاشت بھی اس کا ایک ثبوت ہے۔ دس  برس پہلے چین نے چھ ہزار دوسو مربع کلو میٹر کے وسیع رقبے پر توت کی کاشت کی ہے جو شایدپوری دنیا میں ایک جگہ پر توت کا سب سے بڑا باغ ہے۔

توت اور ریشم کے کیڑے کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہاں تک کہ اس کا سائنسی نام بھی "بوم بیکس موری" ہے یعنی توت درخت کا کیڑا، توت کا نباتاتی نام‘‘ مورس البا ’’ ہے، انگریز اسے وائٹ ملبری یا سفید توت کہتے ہیں جبکہ برصغیر کی دیگرمقامی زبانوں میں، توت، توتہ، توتی وغیرہ کہا جاتا ہے۔

برصغیر میں توت کی کاشت کی تاریخ بہت پرانی اور کئی ہزار برس پر محیط ہےاور اب توت کو مقامی درخت کا درجہ حاصل ہے۔

توت کا شمار نباتات کے ایک خاندان ‘‘مورایسی’’ میں کیاجاتا ہے، اس کے چالیس ذیلی خاندان اور لگ بھگ ایک ہزار اقسام کے درخت اور پودے ہیں۔ یہ خاندان ہمارےلئے کچھ اجنبی نہیں، اسی خاندان کے کچھ اور ارکان بھی ہمارے معاشرے کا اہم حصہ ہیں ان میں سب سے بڑھ کر تو ‘‘بوڑھ’’ جیسا بزرگ اور عظیم درخت ہےاس کے علاوہ انجیر ا، پیپل اور پلکن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

انگلش میں وائٹ ملبری اور ہمارے ہاں توت سیاہ کہلانے والا یہ پھل اپنی زندگی کے مختلف مراحل میں کئی رنگ بدلتا ہے اور اس کو ان سب مراحل میں دیکھنا بھی اتنا ہی پر  لطف ہے جتنا خود اس کا رسیلا ذائقہ۔

ابتدأ میں یہ سبز رنگ کا ہوتا ہے جو کچھ ہی دنوں میں دودھیا سفید میں بدل جاتا ہے،پھر ہلکا گلابی اور گہرا ہوتے ہوئے عنابی اور آخر میں سیاہی مائل ہوجاتا ہے۔

اپنے ذائقے اور بے پناہ طبی خصو صیات کی بنا پر انتہائی مقبول توت کا پھل ایک انچ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے جو دراصل بہت سے ننھے ننھے رسدانوں کا مجموعہ ہوتا ہےجو دھاگے کی سی باریک ایک ننھی شاخ پر ایک ساتھ جڑکر اس کی شکل بناتے ہیں۔

انتہائی میٹھا ہونے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی ترشی اس کے ذائقے کو منفرد بناتی ہے اور اسے پہچان دیتی ہے۔اس کی مختلف اقسام کےنباتاتی ملاپ سے ایسی اقسام بھی تیار کی گئی ہیں جن کا پھل تین سے چار انچ تک لمبا ہوتا ہے اس میں بھی دو رنگ اور ذائقے ہیں سبز بہت میٹھا اور عنابی یا کالا قدرے ترش ہوتا ہے اور توت کی بجائے شہتوت (شاہ توت) کہلاتا ہے۔

پنجاب میں اسے برف کی سل پر ،گلاب کی پتیوں سے سجا کر فروخت کے لئے پیش کرنے کی روایت ہے ۔ گلاب کی خوشبو سے اس کامزا دوبالاتو ہوہی جاتا ہے ،  لوگوں کے ذوق اور ان  کی توت سے دلی وابستگی کا پتا  بھی دیتا ہے۔

توت کے موسم میں ‘‘ شہتوت جلیبا ٹھنڈا ٹھار’’ کی آوازیں ہر گلی محلے میں سنائی دیتی ہیں۔توت کو بطور پھل ہی کھایا جاتا ہے کیونکہ ہم نے اس کے بے پناہ فوائد سے پوری طرح مستفید ہونے کے لئے اس کی فوری  استعمال کے قابل اشیاء ہی نہیں بنائیں جو اس کی قدروقیمت میں اضافہ کرکے اسے کاشت کاروں کے لئے اور بھی  منافع بخش بنائے۔

صرف ایک یا دو شربت بازار میں دستیاب ہیں جو بطور دوا استعمال کئے جاتے ہیں۔ مغرب میں اس سے جیم ،جیلی اور مختلف مشروبات بنائے جاتے ہیں اور پھر توت سے بنے میٹھے کے بغیر تو ان کے کھانوں کی فہرست ادھوری ہی ہوتی ہے۔ توت کودیگر میوہ جات کی طرح خشک کر کے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

توت ایک درمیانے قد کاٹھ کا گھنی چھاؤں والا درخت ہے ۔ عموماً دس ،بارا میٹرتک بلند ہوتا ہے پر کبھی کبھی بہت موافق حالات اورٹوکریوں کے لئے کی جانے والی بے تحاشہ شاخ تراشی سے بچ جانے پر بیس میٹر تک بھی جا نکلتا ہے۔

ہمارے موسمی حالات میں یہ صدا بہار نہیں ہے اور خزاں میں پتے جھاڑ دیتا ہے۔ بہار کے آغاز ہی میں اس پر پہلے پھول آتے ہیں جو یک جنسی ہوتے ہیں  مگر نر اور مادہ پھول ایک ہی درخت پر ہونے کے باعث نباتاتی ملاپ دشوار نہیں ہوتا۔

نباتاتی ملاپ کے لئے جہاں رینگنے اور اڑنے والے کیڑوں اور خاص طور پر شہد کی مکھی کا کردار اہم ہوتا ہے وہیں ہوا کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ توت کے بارے میں تو یہ بہت ہی اہم ہے۔

نباتات کی دنیا میں ، پودے جس رفتار سے اپنا پولن ہوا کے سپرد کرتے ہیں اسے اہم تصور کیاجاتا ہےاور‘‘ریپڈ پلانٹ موومنٹ’’ کہا جاتا ہے۔توت کی یہ صلاحیت بہت ہی نمایاں ہے اور اسے آواز کی رفتار کے نصف کے برابر(۵۶۰ کلو میٹر فی گھنٹہ) ماپا گیا ہے جوآج تک ماپی گئی کسی بھی  دوسرے پودے کی اسی صلاحیت سے بہت زیادہ ہے۔

اس سارے عمل کا بہت ہی دیدہ زیب اور لذیذ نتیجہ برامد ہوتا ہے ، جی ہاں ! توت کا پھل، پتوں کے بغیرتوت کا پیڑ جب پھل سے بھر جاتا ہے تو ایک الگ ہی منظر ہوتا ہے ، اورپھل بھی اتنا کہ کسی اوردرخت پر نہ آتا ہوگا، بیر پر بھی نہیں۔

کیا انسان کیا چرند پرند سب ہی کے لئے کچھ نہ کچھ۔ پھل کے بعد پتے نمودار ہو کر گھنا سایہ مہیا کرتے ہیں۔

توت کے پتے اپنی ساخت اور سائز  میں نہ صرف ایک درخت بلکہ ایک شاخ پر بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں ۔ دو سے پانچ انچ کے یہ انوکھے پتے انسانی ہتھیلی سے مشابہ مگر پانچ کی جگہ تین انگلیوں والی، پان کی شکل کے یا پھر کٹے پھٹے، کنارے آری کے دندانوں والے ، اوپر سے گہرے سبز اور ہموار اور نیچے سے قدرے کھردرے اور سفید بھی، پتوں کی رگیں نچلی طرف نمایاں ہوتی ہیں۔

توت کی چھڑیا ں بہت لچکدار اور مظبوط ہوتی ہیں اور ٹوکری بننے والوں کی اولین پسندبھی۔ اس کی ٹوکریاں مرغیوں کو بند کرنے سے لے کر پھل اور دیگر زرعی پیداوار کو سنبھالنے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لانے لے جانے کا اہم کام بھی انجام دیتی ہیں۔

گر ہم غور سے دیکھیں تو زندگی گزارنے اور روزمرہ کے معاملات سے نمٹنے کا ہمارا اپنا ڈھنگ بہت حد تک قدرت پر انحصار کرتا تھااور درپیش مسائل کے حل کے لئے اسی سے رجوع کیا جاتا تھا۔

اس کی واضح مثالیں مختلف فصلات کے بچ جانے والے اجزأ سے بنائی گئی ٹوکریاں ، چھابیاں اور قدرتی ریشوں سے بنائی گئی بوریاں اور تھیلےوغیرہ شامل ہیں۔ اس کے برعکس ان کے متبادل کے طور پر مسلط کئے جانے والے شاپنگ بیگ ، پلاسٹک اور دوسرے پیٹروکیمیکلز کے برتن،  ٹوکریاں، تھیلے ، بوریاں بہت سی خطرناک بیماریوں اور ماحول کی نا قابل اصلاح آلودگی کا باعث ہیں۔

صنعتی ترقی نے جو حل پیش کئے وہ بظاہر خوشنما اور ارزاں نظر آئے مگر چند ہی دھائیوں میں ان کے شبیہ مسخ ہونے لگی اور آج ہم ان کی بھاری قیمت بھی ادا کر رہے ہیں۔ ہمیں صدیوں سے آزمائے ہوئے طور طریقوں کو یکسر مسترد نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کو ہی جدید بنانا اور صنعتی ترقی سے ہم آہنگ کر نا چاہیے، اسی میں ہماری اور ہمارے ماحول کی بقا ہے۔

توت کی لکڑی کے اور بھی بہت سے اہم استعمال ہیں، یہ کھیلوں کا سامان اور خاص طور پر ہاکیاں بنانے کے کام بھی آتی ہے جو ہمارا قومی کھیل ہے۔اسی طرح ٹینس اور بیڈ منٹن  وغیرہ کے ریکٹ بھی  اسی سے بنائے جاتے ہیں۔ مگر اب کچھ عرصے سے فائبر گلاس اور مختلف دھاتوں کے استعمال نےاس کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔

توت کی لکڑی کا رنگ ہلکا زرد، چمکدار  زرد، وزن میں ہلکی ، لچکدار اورمظبوط ہوتی ہے۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ توت اور موسیقی کا آپس میں کوئی گہرا رشتہ ہے، نہ صرف یہ کہ بہت سے خوش الحان پرندے اس کا پھل کھاتے ہیں ، اس پر بسیرا کرتے ہیں ، اس سے جو ادویہ بنائی جاتی ہیں وہ بھی گلے کی خراش وغیرہ میں تجویز کی جاتی ہیں۔

اس کی لکڑی کے آلات موسیقی میں استعمال کی روایت بھی صدیوں پر محیط ہے۔ توت سے آلات موسیقی کے وہ حصے بنائے جاتے ہیں جن کا تعلق ساز کی تاروں کے چھیڑے جانے سے پیدا ہونے والی آواز کوایک خاص تناسب سے بڑھانا اور بڑھتے ہوئےاس کی باریکیوں اور اتار چڑھاؤ کو نہ صرف برقرار رکھنا بلکہ اور بھی واضح کرنا ہوتا ہے، انہیں ‘‘ساؤنڈ بورڈ’’  یا ‘‘ ریزوننس بورڈ ’’  اور اس صلاحیت کو ‘‘ اکوسٹک کنورٹنگ افی شن سی’’  کہا جاتا ہے ، جو تو ت کی لکڑی میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔

دوھزار اٹھ میں ایران کی تین یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے اس کو سائنسی طور پر بھی ثابت کیا اور اسی سال ہونے والی ایک بین الاقوامی سائنسی کانفرنس میں اس پر مقالہ پڑھا۔ انہوں نے توت کی لکڑی کے باریک تختوں یا پارچوں کو اسی عمل سے گذارا جو ایران میں آلات موسیقی بنانے والے صدیوں سے کرتےآئے تھے اس طرح جدید علوم کی روشنی میں اس کامطالعہ کیا اور اس کا درست ہونا ثابت کیا۔

ہمارے ماحولیاتی نظام کے لئے اجنبی ، غیر مقامی پودے اور درخت دیکھنے میں تو شائد بھلے لگیں لیکن ان کا اپنے ماحول ، ادرگرد پائی جانے  والی نباتات اور زندگی کی دیگر اشکال سے وہ رشتہ نہیں بن پاتا جو مقامی اور ہم وطن پودوں اور درختوں سے ہوتا ہے۔

یہ صرف جذباتی رشتہ نہیں ہوتا،یہ تعلق صدیوں میں ان کے معاشی و سماجی مفادات اور ضرویات کے مشترک ہونے سےبنتا اور آہستہ آہستہ پروان چڑھتا ہےاور یوں ان کی زندگیوں کا حصہ بن جاتا ہے۔

ان کی زبان، بول چال، محاوروں ، شاعری اور ادب کا حصہ ہوتا ہے، ان کی خوراک،  ادویہ، رسم و رواج، شادی بیاہ غرض زندگی کے سفر کا ساتھی ہوتا ہے، ماحول کے اس توازن سے چھیڑ چھاڑ کسی کے مفاد میں نہیں ہوتی اور ان میں سے کسی ایک کا اپنی جگہ نہ ہونا پورے نظام کو متاثر کرتا ہے۔اس کے نتائج گمبھیر اور دوررس ہوتے ہیں۔

توت سے ہماری وابستگی بھی کچھ ایسی ہی ہے، ہماری شاعری ،موسیقی اور ادب کا دامن بھی توت کے ذکر سے آباد ہے، شاعروں نے اپنے گیتوں کو اگر اس سے سجایا ہے تو موسیقاراور گائیک بھی پیچھے نہیں ہیں، ہماری لوک موسیقی کا ایک حوالہ جسے ہر دور میں تمام مقبول گلوکاروں نے گایا،

"اپنا گراں ہوئے ، توتاں دی چھاں ہوئے وانے دی منجی ہوئے، سر تھلے بانھ ہوئے"

اس شعر میں اپنے گاؤں میں توت کی ٹھنڈی چھاؤں سے ملنے والے سکون اور بان کے پلنگ کا آرام تو سمجھ میں آیا لیکن شاعر نے یہ نہیں بتایا کہ سر کے نیچے ‘‘بانھ’’ کس کی ہو، اگر آپ کوسمجھ آیا ہو تو ہمیں بھی بتائیں؟

توت ایک ہمہ جہت درخت ہے اور اس کا کوئی بھی حصہ معاشی اہمیت سے خالی نہیں، اس کے کچھ خواص اور استعمالات پر ایک نظر ڈالنے کی کوشش ان صفحات میں کی گئی ہے، اس کی کاشت ہمیشہ سے منافع بخش رہی ہے۔

توت کے پتوں پر ریشم کے کیڑوں کا پلنا دنیا بھر میں اس کی کاشت کی ایک اہم وجہ ہے۔  قدرتی طور پر پاکستان کے بہت سے علاقے اس کی کاشت کے لئے موزوں ہیں ۔

اس کا ظاہری حسن، اس کی آرام دہ چھاؤں، اس کا لذیذ اور صحت بخش پھل وغیرہ وہ خصوصیات ہیں جن کے لئے اسےپاکستان میں کاشت کیا جاتا ہے،توت سے بننے والی اشیا ٔ اور ان کے استعمال کو جدید علوم کی روشنی میں بہتر کیا جاسکتا ہے ایسی نئی اشیأ جو اس کی قدر میں اضافہ کر سکیں بنائی جاسکتی ہیں۔

توت کے پھل ، توت کی لکڑی اور اس کے پتوں پر پلنے والے ننھے ننھے ریشم کے کیڑوں، سب میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ تنہا یا اجتماعی طور پر کسی اہم معاشی سرگرمی کے محرک ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگوں کے لئے با عزت روزگار مہیا کرنے کا سبب بھی۔ گاؤں کے گاؤں ریشم کے کاروبار سے آباد ہوسکتے ہیں۔

توت کی لکڑی سے بنا معاشی گاڑی کا یہ پہیہ بہت موثر اور دوسری سرگرمیوں سے متصل ہو کر اجتماعی ترقی کا سرخیل ہوسکتا ہے۔


سید قمر مہدی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔