باغوں کا محافظ
مہم کے اختتام پر جناب ہنری فیلڈ نے دس ہزارجڑی بوٹیوں کے نمونے، جنہیں سائنسی اسطلاح میں ‘ہربیریم اسپے سی من’کہتے ہیں اپنے ادارے کو مہیا کیے۔ ہربیریم اسپے سی من پودے کے تمام حصوں کو اس طرح محفوظ کرنے کو کہتے ہیں، جن کی مدد سے ان کا مطالعہ کیا جاسکےاورطلبہ کو تعلیم دی جاسکے۔ ہر ملک کا اپنا ‘‘نیشنل ہربیریم ’’ہوتا ہے، جس میں اس کے اپنے مقامی پودوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔ عموماً یونیورسٹیاں بھی اپنے ہربیریم بناتی ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق پاکستان کا اپنا کوئی ہربیریم نہیں ہے اور نہ ہی کوئی یونیورسٹی اس طرح کی کوئی سہولت اپنے طلبہ کو مہیا کر رہی ہے۔ ڈاکٹر ہنری کی اس یاترا میں بہت سے دلچسپ واقعات پیش آئےاور ان کا سفر حقیقی معنی میں وسیلہ ظفر ثابت ہوا۔ اپنے دورہ اصفہان میں ان کی ملاقات پچانوے سالہ حکیم مرزا محمد علی خان سے ہوئی جو کئی پشتوں سے شعبہ طب سے منسلک تھے اور صرف بیس سال کی عمر سے باقاعدہ طبیب کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ ڈاکٹر ہنری کے مطابق وہ کمال مہربانی سے نہ صرف اپنے نسخہ جات انہیں لکھوانے پر آمادہ ہوئے بلکہ اپنے خاندانی نسخہ جات بھی، جو دوضخیم جلدوں پر مشتمل تھے، مطالعے اور نقول کی تیاری کے لیے ان کے حوالے کر دیے ۔ ان نسخہ جات کو فیلڈ میوزیم آف نیچرل ہسٹری، شگاگو یونیورسٹی نے۱۹۳۷ میں کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ یہ دلچسپ کتاب ہےاور اپنے وقت کی حکمت اور ادویہ کی مکمل دستاویزبھی مگر پیش لفظ کی آخری سطروں نے چونکا دیا۔ ڈاکٹر ہنری فیلڈ کے یہ الفاظ آپ کے مطالعے کے لیے من و عن نقل کیے جا رہے ہیں یہ اب آپ کا کام ہے کہ اس پر اپنی آرا کا اظہار کریں: 'ایران میں رضا شاہ پہلوی اورعراق میں غازی شاہ کی قیادت میں جس تیزی سے مغربیت کو اپنایا جا رہا ہے، یہ نہایت ضروری ہو گیا ہے کہ جلد از جلد ان ممالک کےمعدوم ہوتے طبّی ورثے کو اس کی اصلی حالت میں محفوظ کر لیا جائے۔' اس نادر کتاب کا سراغ اتفاقاً ہاتھ لگا۔ دراصل میں اپنے ایک بہت ہی پیارے ہم وطن درخت کے نام کے معنیٰ اور وجہ تسمیہ کی تلاش میں تھا۔ اسی دوران اس کے ایک اور ہم نام سے جاملا جوازبکستان کے شہر بخارا کے نواح میں پایا جاتا ہے اور اپنے ادویاتی خواص کی بنا پر اہم تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے اس ہم وطن کے نام پرایک شہر ہمسایہ ملک افغانستان میں ہے۔ اس مجسم حسن کے نام پر بہت سے مسلمان ملکوں میں بچیوں کا نام رکھا جانا بھی مقبول ہے۔ چلیے اب کیا چھپانا! یہ وہی دراز قد سنبل ہے جو ہر موسم میں پوشاک بدل بدل کر اپنا اور اردگرد کا نظارہ دلفریب کیے رکھتا ہے۔ سنبل، گرمیوں کے پورے موسم پتوں سے ڈھکا رہتا ہے۔ یہ اپنے پورے قد کاٹھ سے اطراف میں ٹھنڈی چھاؤں کیے رکھتا ہے۔ خزاں کے آتے ہی یہ پتے جھاڑ کر سردی کی ناتواں دھوپ کو راستہ دیتا ہے۔ بہار کا تواعلان ہی اس کے چہاراطراف پھیلی شاخوں پر، موٹی موٹی انڈے کی شکل کی کلیوں کے نمودار ہونے سے ہوتا ہے جو سیاہی مائل بھورے رنگ کی ہوتی ہیں۔ مضبوط شاخوں پرکلیوں کے گچھے ماہ فروری میں سرخ، نارنجی یا پیلے پھولوں میں بدل جاتے ہیں۔ یہ پھول بلا مبالغہ سیکڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں۔ پھولوں سے لدا دیدہ زیب درخت مرکز نگاہ اور اطراف کی تمام چیزوں پر حاوی ہوتا ہے۔ دن کی روشنی میں یہ منظر رات کی تاریکی میں ہونے والی آتشبازی سے مشابہ ہوتا ہے۔ نباتات کی کتابوں میں سنبل کا نام 'بوم بیکس سیبا' درج ہے۔ اس کا شمار پھول دار درختوں والے خاندان 'مالوےیسی' میں کیا جاتا ہے۔ ہندی میں سیمل اور انگلش میں سلک کاٹن ٹری کہا جاتا ہے، چین میں یہ مومی این کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کی کاشت کا علاقہ بہت وسیع و عریض ہے۔ جنوب میں تامل ناڈو سے لے کر ہمالیہ کے دامن تک اونچے نیچے، خشک وتر، یہ سب مقامات پرسر اٹھا کر جیتا ہے۔ سنبل کے پانچ سے سات انچ کے، پانچ سے نو پتے ایک مرکزی شاخ سے جڑے ہو کر انسانی ہاتھ سی شبیہ بناتے ہیں۔ تنے سے پھوٹنے والی شاخیں متوازی اور سیدھی ہوتی ہیں اور تنے کے گردایک چکر کی صورت چاروں طرف پھیلی ہوتی ہیں۔ باغبان نیچے سے ان کی چھٹائی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح تنا صاف ہوتا جاتا ہےاور شاخوں کی چھتری اوپر کی جانب بڑھتی جاتی ہے۔ یوں ایک سیدھااور سایہ دار پیڑ وجود میں آتا ہے۔ چھ سے آٹھ انچ کا پانچ پنکھڑیوں والا خوشنما پھول بہت چمکدار اور ریشمی ہوتا ہے۔ دھوپ پڑنے پراس کی چمک دور تک جاتی ہے۔ پھول اپنی وضع قطع میں بیڈ منٹن کی چڑیا سے مشابہت رکھتا ہے۔ اس میں پانی اور مٹھاس کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو بہت سے پرندوں کے لیے سال بھر کی توانائی کا سامان لیے ہوتی ہے۔ شہد کی مکھیاں اور بہت سے پرندے پھولوں کے کھلتے ہی اس طرف کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے شاید کم ہی درخت ہوں گے جن میں پرندوں کے لیے سنبل جتنی کشش ہو۔ باغوں میں اس کی موجودگی پرندوں کی آمد کا سبب بنتی ہے۔ سید قمر مہدی لاہور میں مقیم ماہرِ اشجار ہیں وہ پنجاب لوک سجاگ میں خدمات سرانجام دیتے ہیں۔