برصغیر میں حقوقِ نسواں کی علمبردار ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور سنیچر کو کراچی میں تراسی سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔
خود کو دہائیوں سے گوشہ نشین کرلینے والی اُردو کی نامور ادیب کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے کم ازکم سات مجموعے شائع ہوئے۔
ادب کے نقاد ان کے شہرہ آفاق افسانوں میں سے ایک 'خرمن' کو قرار دیتے ہیں۔
ہاجرہ مسرور کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے موضوعات سماج و سیاست ، قانون و معیشت کی ناہمواریوں اور، خواتین کے استحصال کے گرد گھومتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں اُردو ادب کی اس ممتاز افسانہ نگار کو حقوقِ نسواں کی علمبردار کہا جاتا ہے۔
ہاجرہ مسرور کو اُن کی ادبی خدمات کے اعتراف میں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔
حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات پر سن انیسو پچانوے میں 'تمغہ حُسنِ کارکردگی' دیا۔ انہیں 'عالمی فروغِ اُردو ادب ایوارڈ' بھی دیا گیا تھا۔
ہاجرہ مسرور نے پاکستانی فلمی صنعت کے اچھے دنوں میں کئی فلموں کے اسکرپٹ بھی لکھے۔ ان کے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز 'نگار ایوارڈ' بھی دیا گیا۔
انہوں نے اُنیسو پینسٹھ میں بننے والی پاکستانی فلم 'آخری اسٹیشن' کی کہانی بھی لکھی تھی۔ یہ فلم معروف شاعر سرور بارہ بنکوی نے بنائی تھی۔
ان کے افسانوں کا مجموعہ اُنیسو اکیانوے میں لاہور کے ایک ناشر نے 'میرے سب افسانے' کے عنوان سے شائع کیا تھا۔
افسانوں اور مختصر کہانیوں کے علاوہ انہوں نے ڈرامے بھی لکھے تھے۔
چند سال قبل آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے بچوں کے لیے لکھی اُن کی کئی کہانیاں کتابی شکل میں شائع کی تھیں۔
ہاجرہ مسرور نے گھر کے اچھے دنوں میں آنکھ کھولی مگر بہت جلد ان کا گھرانہ نامساعد حالات کا شکار ہوا اور انہوں نے سخت حالات میں پرورش پائی۔
ان کا آبائی تعلق ہندوستان کے مرکزِ علم و ادب لکھنئو سے تھا۔ ان کے والد ڈاکٹر تہور احمد خان برطانوی فوج میں ڈاکٹرتھے۔
پیدائش کے کچھ سالوں بعد دل کے دورے سے ان کے والد انتقال کرگئے اور خاندان کی ذمہ داری اُن کی والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔
ہاجرہ کی والدہ کٹھن وقت میں نہایت باہمت خاتون ثابت ہوئیں۔ انہوں نے اپنے چھ بچوں کی تربیت اور پرورش نہایت اچھے اندازمیں کی۔
یہ کُل پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ ان کی چھوٹی بہن خدیجہ مستور بھی اُردو کی معروف ادیب تھیں۔ اُردو ادب کا تذکرہ ان دونوں بہنوں کے بغیر نامکمل رہے گا۔
تقسیمِ ہند کے بعد ہاجرہ بہن خدیجہ کے ساتھ پاکستان آگئیں اورلاہورمیں سکونت اختیار کرلی۔
اُس زمانے میں لاہورپاکستان کی ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اورخود ہاجرہ بطورکہانی وافسانہ نگاراپنا عہد شروع کرچکی تھیں۔ ادبی حلقوں میں اُن کی پہچان ہوچکی تھی۔
ہاجرہ نے بچپن سے ہی مختصر کہانیاں لکھنا شروع کردی تھیں جو اپنے وقت کے معروف اُردو ادبی رسائل میں شائع ہوتی تھیں۔ ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں ابتدا سے ہی بہت پذیرائی حاصل رہی تھی۔
ہاجرہ لاہور میں معروف ادیب احمد دیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ 'نقوش' مرتب کرتی تھیں۔ قاسمی صاحب کی دونوں ادیب بہنوں ہاجرہ اورخدیجہ سے بہت اچھی دوستی تھی۔
ہاجرہ مسرور کی تحریریں معاشرے کی منفاقتوں کی کھل کرعکاسی کرتی تھیں، جس پر انہیں بھی منٹو اورعصمت چغتائی کی طرح سماج کے قدامت پسند حلقوں کی طرف سے بدترین تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔
اُردو ادب میں ان کی شناخت روایت شکن تحریریں ہیں جو تیز دھار خنجر کی مانند معاشرے پر پڑے وہ پردے چاک کردیتی تھی، جس کی آڑ میں صنفِ نازک کا استحصال ہوتا ہے۔
سن انیسو اکھہتر میں انہوں نے معروف صحافی احمد علی سے شادی کی۔ اُس وقت وہ انگریزی روزنامہ 'پاکستان ٹائمز' کے ایڈیٹر تھے۔
انیسو تھہتر میں احمد علی نے بطور ایڈیٹر روزنامہ 'ڈان' جوائن کیا اور کراچی آگئے۔ وہ اٹھائیس برس تک ڈان کے ایڈیٹر رہے۔ ان کا انتقال ستائیس مارچ، دو ہزار سات کو ہوا۔
حاجرہ اور احمد علی کی دو بیٹیاں ہیں۔ ایک نوید احمد طاہر اور دوسری نوشین احمد ہیں۔
کئی برس تک لاہور میں سرگرم ادبی زندگی بسر کرنے والی ہاجرہ مسرور نے شادی کے بعد خود کو گھر تک محدود کرلیا۔ ان کی ادبی سرگرمیاں ختم ہوچکی تھیں اور وہ مکمل طور پر خانہ دار خاتون بن گئی تھیں۔
کئی دہائیوں کی گوشہ نشینی کے بعد پہلی بار، پُرزور اصرار پر وہ کئی سال پہلے لاہور کے گورنمنٹ کالج میں منعقدہ تقریب ایک ادبی تقریب میں شریک ہوئیں۔
یہ تقریب برِ صغیر کی معروف ادیبہ قرت العین حیدر کے اعزازمیں منعقد ہوئی تھی۔
مکمل گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے والی روایت شکن ادیبہ کے بارے میں نئی نسل کو شاید کچھ زیادہ علم نہیں۔ اس حوالے سے مرحومہ کی صاحبزادی نے ایک دلچسپ انکشاف کیا ہے۔
ڈان ٹی وی اُردو سے گفتگو کرتے ان کا کہنا تھا تقریباً آٹھ سال پہلے معروف ادیبہ اور شاعر کشور ناہید ٹی وی کیمرہ کے ساتھ اُن کے گھر آئی تھیں۔ انہیں امید نہ تھی کہ وہ انٹرویو دینے سے انکار کریں گی، مگر انہوں نے ایسا کیا اور کشور ناہید کو مایوس لوٹنا پڑا۔
ہاجرہ مسرور کی کہانیوں اور افسانوں پر مشتمل کم از کم سات مجموعے شائع ہوئے، ان میں 'چاند کے دوسری طرف'، 'تیسری منزل'، 'اندھیرے اُجالے'، 'چوری چھپے'، ' ہائے اللہ'، 'چرکے' اور 'وہ لوگ' شامل ہیں۔