ملتان کی کہانی – 3
ہندوستان کی سرزمین پہ سولہ اپریل 1853 کے دن پہلی بار ریل چلی تھی۔ جس طرح پل بنانے والے نے دریا کے اس پار کا سچ اس پار کے حوالے کیا ، اسی طرح ریل کے انجن نے فاصلوں کو نیا مفہوم عطا کیا۔ اباسین ایکسپریس ، کلکتہ میل اور خیبر میل صرف ریل گاڑیوں کے نام نہیں بلکہ ہجر، فراق اور وصل کے روشن استعارے تھے۔
اب جب باؤ ٹرین جل چکی ہے اور شالیمار ایکسپریس بھی مغلپورہ ورکشاپ کے مرقد میں ہے، میرے ذہن کے لوکوموٹیو شیڈ میں کچھ یادیں بار بار آگے پیچھے شنٹ کر رہی ہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے ریل میں بیٹھ کر تو کبھی دروازے میں کھڑے ہو کر خود سے کی ہیں۔ وائی فائی اور کلاؤڈ کے اس دور میں، میں امید کرتا ہوں میرے یہ مکالمے آپ کو پسند آئیں گے۔
یہ اس بلاگ کا تیسرا حصّہ ہے، پہلے اور دوسرے حصّے کے لئے کلک کریں
ملتان میں عبادت گاہی کی رسم بہت پرانی ہے مگر اس سے بھی قدیم ایک اور بات ہے۔ جس مورخ نے شہر کے بارے میں لکھا ہے کہ یہاں پھل بے حد سستے ہیں، مکان ساگوان کے ہیں اور شہر آسودہ ہے، اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہاں جرم کا رواج کم ہے، لوگوں میں خدا خوفی زیادہ ہے اور محتاجوں کے کھانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
یہی رنگ ملتان کا اصل رنگ ہے۔ مدینۃ الاولیاء کہلانے والے شہر میں آج بھی اس قدر حلم ہے کہ لوگ وقت پوچھنے پہ گھڑی دو گھڑی ساتھ بھی چلتے ہیں۔ نہر کے پار جہاں نیلے سفید برتن بنتے ہیں اور اب دور دیس ملتان کی ثقافت کے پیمبر ٹھہرے ہیں، ان سے کہیں زیادہ مضبوط سفارت، یہاں کے تصوف کی ہے۔
مسلمان صوفیاء سے پہلے یہاں ہندو بھگتوں کا رواج تھا۔ جب ملتان مشرف بہ اسلام ہوا اور اولیا اللہ کا ورود شروع ہوا تو کچھ عمر کا ایک حصہ یہاں گزار کر رخصت ہو گئے اور کچھ یہاں آئے تو پھر یہیں کے ہو کہ رہ گئے۔
شہر میں تصوف کا سلسلہ دیوان چاؤلی شریف سے شروع ہوتا ہے۔ ہندو راجہ مہ پال کے اس بیٹے کا اصلی نام رائے چاؤلی تھا۔ مسلمان ہونے کی پاداش میں آپ کے بھائیوں نے آپ کو قتل تو کر دیا مگر اہل ملتان نے آپ کے نام پہ ایک بستی بسا کر آپ کی یاد کو زندہ رکھا ہے ۔
اگلا تذکرہ شاہ یوسف گردیز کا ہے، جنہوں نے حضرت میراں موج دریا کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ آپ کے مقبرہ کو جس عقیدت سے بنایا گیا، اس کا مظہر وہ اینٹیں ہیں جو اب لندن کے کرامویل روڈ میں ہندوستانی آثار قدیمہ کے نمونے کے طور پہ سجی ہیں۔
ملتان کو یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری جیسے بزرگ اس کے شہری رہ چکے ہیں۔ آپ نے یہاں پانچ سال گزارے جس دوران حکمت بھی کی اور پرہلاد کے پروہتوں سے سنسکرت اور پراکرت بھی سیکھی ۔
انہی کی اتباع میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی بھی ملتان آئے۔ اپنے قیام کے دوران ان کی ملاقات بابا فرید سے ہوئی، جنہوں نے آپ کے ہاتھ پہ بیعت کی۔ گنج شکر کے لقب سے شہرت پانے والے اس مرد قلندر کے نام پہ قائم زاویے آج بھی فلسطین میں ملتے ہیں۔ بابا فرید نے اپنی اشلوک جیسی شاعری سے برصغیر میں قائم سماجی تقسیم کو بہت حد تک زائل کیا۔
ملتان کے صوفیاء میں ایک بڑا نام حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی کا بھی ہے، جو خراسان، بخارا اور مدینہ جیسے شہروں سے فیض یاب ہونے کے بعد ملتان پہنچے۔ یہاں آپ نے سلسلہ سہروردیہ کا پہلا مدرسہ کھولا، جس کا کتب خانہ اپنے زمانے میں پورے ہندوستان میں شہرہ رکھتا تھا۔
اس مدرسے کے تربیت یافتہ علماء نے جاوا اور سماٹرا جیسی جگہوں پہ خانقاہیں آباد کیں۔ سلوک کی منزلوں کے ساتھ ساتھ آپ راگ راگنیوں کے علم میں بھی قدرت رکھتے تھے اور ملتانی دھناسری جیسے راگوں کے خالق مانے جاتے ہیں۔ آپ نے اپنا مقبرہ خود تعمیر کروایا جسے 1848 کی جنگ میں شدید نقصان پہنچا ۔ پہلے تو اہل شہر، حکام کی طرف دیکھتے رہے مگر بعد میں خود ہی چندہ کر کے مقبرے کی مرمت کروائی۔
ملتان کی تپش کا ایک استعارہ شاہ شمس سبزواری بھی ہیں۔ ایران کے شہر سبزوار سے تعلق رکھنے والے اس مرد قلندر نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد بدخشاں سے تبت تک تبلیغ کا سفر کیا۔ تبریز میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد آپ ملتان آن بسے۔
شاہ شمس کے حسن سلوک سے مسلمان ہونے والے آج بھی اپنے نام کے ساتھ شمسی کی عرفیت لگاتے ہیں۔ تقدیس کی یہ روائت صرف مسلمانوں میں ہی نہیں، بلکہ تقسیم سے پہلے ملتان کے کئی محلوں میں آپ کے عقیدت مند ہندو بھی رہتے تھے، جو خود کو شمسی ہندو کہلواتے تھے۔
ملتان کی دوسری پہچان شاہ رکن عالم ہیں۔ بی بی پاک دامن کے اس بیٹے کا نام پہلے تو رکن الدین رکھا گیا مگر پھر بعد میں خواجہ شمس سبزواری نے آپ کے نام میں عالم کا اضافہ کیا۔
ایک عمر تک لوگوں میں تصوف کی روشنی پھیلانے والے اس درویش نے اپنی عمر کے آخری دس سال خانقاہ نشین ہو کر گزارے۔ وصال کے روز آپ نے خود اپنی تدفین کے بارے میں ہدایات دیں اور نماز مغرب کی امامت کے بعد سجدے میں سر رکھ کر جان دے دی۔ کوئی وقت تھا کہ ملتان آنے والے کو سب سے پہلے حضرت شاہ رکن عالم کے مزار کے گنبد دکھائی دیتے تھے۔
ان کے علاوہ شیخ صدر الدین عارف، خواجہ حسن افغان، سید جلال الدین سرخ بخاری، شیخ رکن ا لدین ابوالفتح، شیخ حسام الدین ملتانی، مخدوم جہانیاں جہاں گشت، سید صدرالدین راجو قتال، حضرت شاہ دانا شہید، حضرت شاہ علی محمد، شیخ حسین کاہ بر، پیر دربار شاہ، حضرت موسیٰ پاک شہید، حضرت حافظ محمد جمال ملتانی، خواجہ خدا بخش، حضرت سلیمان تونسوی، حضرت غلام حسن شہید اور عبدالرشید حقانی بھی اسی راستے کے مسافر ہیں۔
ملتان کے مذہبی رنگ میں ایک رنگ عاشور کا بھی ہے۔ محرم کا چاند نظر آتے ہی شہر ایک سیاہ چادر اوڑھ لیتا ہے۔ روایات کے مطابق، شہداد بن چاکر کو ملتان میں اہل تشیع کا پہلا عالم کہا جا سکتا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ تاتاریوں کے حملے کے نتیجے میں ایران کے اشراف یہاں پہنچے تو یہ مسلک ساتھ لے آئے۔
مگر سب سے خوبصورت روائت حسینی براہمنوں کی ہے جو پنجاب کے موہیالوں میں سے تھے۔ راہب دت سے اپنا تعلق بتانے والے ان براہمنوں کے چند ایک گھرانے ملتان میں بھی ملتے تھے۔ مذہب سے بے نیاز، اس مکتبہء فکر کے لوگ حضرت حسین سے بے پناہ عقیدت رکھتے تھے۔
کہی سنی کے مطابق پراکرتوں میں مرثیہ گوئی کے اولین شاعر بھی یہی حسینی برہمن تھے اور پہلے پہلے جنگ نامے بھی انہوں نے ہی لکھے۔ ملتانی مرثئے انیس اور دبیر کی طرح مشہور تو نہیں مگر فصاحت میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ مذہب اور فن کا یہ امتزاج، تعزیہ کی دنیا میں استاد، شاگرد اور کمنگراں کے نام سے مشہور ہیں۔
ملتا ن کے صوفیا نے صرف مذہب کی خدمت نہیں کی بلکہ ایک نیا طرز زندگی متعارف کروایا جس میں انسان کا انسان سے آسودگی کا رشتہ تھا۔ چونکہ آدم کو آدم سے جوڑنے میں نئے رابطے درکار ہوتے ہیں سو ان لوگوں کے اظہار کے سبب اردو زبان کو بھی آہستہ آہستہ آباد ہونے کا موقع ملا۔ ملتان شہر، کوزہ گری سے عمارتوں کی محراب دار ڈاٹوں، اور خطاطی سے منقش اینٹوں تک، پتھر پتھر ان لوگوں کا دین دار ہے۔
شہر کی قسمت پہ رشک آتا ہے جہاں کاظمی، بخاری اور جالندھری تو اپنے عروج تک پہنچ گئے ہیں جب کہ کئی مصدق اور سانول ابھی آنے والے ہیں۔۔
(جاری ہے)
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="https://api.soundcloud.com/tracks/120692891" width="100%" height="166" iframe="true" /]