جیلی فش: کل کا کچرا، آج سونا
چند سال پہلے تک ماہی گیر جال میں پھنسنے والی جیلی فش کو کچرا سمجھ کر سمندرمیں لوٹا دیتے تھے لیکن اب یہ مچھلی ملنے کی دعائیں کرتے ہیں۔
وجہ ہے اس کی عالمی منڈی میں مانگ۔
ماہی گیروں میں جھرولنکا کے نام سے جانی پہچانی جانے والی ایک جیلی فش کی مقامی مارکیٹ میں قیمت ستر روپے تک پہینچ گئی ہے جبکہ بیرون ملک اس کی قیمت تین سے پانچ ڈالر ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پندرہ سو سے زائد لانچیں روزانہ تیس ٹن تک جیلی فش کا شکار کررہی ہیں، اس کام میں ماہی گیروں کے علاوہ عام شہری بھی شامل ہیں۔
جیلی فش کا شکار دیگر آبی حیات کے مقابلے میں انتہائی آسان ہے، اسے محض چھوٹے سے ریکٹ نما جال سے بھی پکڑا جاسکتا ہے۔
ساحلی علاقوں میں عورتین اور بچے ہاتھوں پر دستانے چڑھا کر اسے پکڑتے نظر آتے ہیں۔
جیلی فش کی برآمد کے آرڈرز پانچ سال پہلے ملنا شروع ہوئےتھے لیکن 2011 تک خصوصی طور پر جیلی فش کا شکار شروع نہیں ہوا تھا
رواں سیزن میں پہلی بار جیلی فش کا باقاعدہ شکار شروع ہوا اور چھوٹی لفٹنگ لانچوں کی توجہ جیلی فش پر ہی ہے۔
یہ مچھلی سمندر میں اتنے کم فاصلے پر مل رہی ہے کہ ماہی گیر دن میں ایک سے زائد مرتبہ شکار پر جا رہے ہیں ۔
اپریل کی ابتدا تک درجنوں افراد لانچیں کرائے پر لے کر جیلی فش کا شکار کررہے تھے لیکن جب لانچ مالکان کو اس مچھلی کا شکار کرنے والوں کی کمائی کا اندازہ ہوا تو انہوں نے لانچیں کرائے پر دینے کے بجائے خود اس کا شکار شروع کردیا۔
ماہرین کے مطابق جیلی فش 650 ملین سال پہلے سے دنیا میں موجود ہے اور اس کی دو ہزار سے زائد اقسام ہیں۔