نقطہ نظر

گھنٹی کون باندھے گا؟

سول-ملٹری تعلقات میں عدم توازن نہ تو جلد ٹھیک ہونے والا مسئلہ ہے اور نہ ہی اسکے لئے کوئی شارٹ کٹ ہے

بلی اگر شیر بن جائے تو اسکے گلے میں گھنٹی باندھنے کا خیال بھی لرزہ خیز ہوتا ہے. اور ہمارے ملک میں تو دستور ہی یہی ہے کہ جو ادارہ ایک دفعہ طاقت جمع کر بیٹھتا ہے تو پھر اسکی طاقت پر انگلی اٹھانے والوں کی تعداد بھی آٹے میں نمک کے برابر رہ جاتی ہے.

البتّہ ان طاقت کے مراکز کی لسٹ میں سے تمام سویلین ادارے خارج ہیں بشمول پارلیمنٹ جنکے بارے میں ذرا بھی خطرہ پیدا ہو کہ یہ اپنے زور پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تو کھٹ سے انکے پر کاٹ کر 'حد' میں لے آیا جاتا ہے.

پہلے یہ ذمہ داری فوج اور خفیہ اداروں کی تھی اور اب حالیہ دنوں میں اس رکھوالی کا ذمہ سپریم کورٹ نے اپنے معزز کندھوں پر اٹھا رکھا ہے. روزمرہ کے بھاؤ تاؤ طے کرنے سے لے کر جمہوری حکومتوں کے اقدامات اور سیاستدانوں کو عدالت کے در پر حاضری دلوانے سمیت 'دلچسپ' تبصرے بھی میڈیا کی بریکنگ نیوز کی بدولت سننے کو مل جاتے ہیں.

ابھی پچھلے ہی دنوں معزز چیف جسٹس صاحب نے جمہوری حکومت کی بلدیاتی الیکشن کروانے سے ٹال مٹول پر ریمارکس دیے کہ ضیاء اور مشرّف مارشل لاء کم از کم اس ضمن میں تو بہتر ہی تھے کہ انہوں نے یہ الیکشن کروا دیے تھے. اگر تو مقصود ایسے ہی الیکشن ہیں تو کس جمہوری حکومت کا دل نہیں للچائے گا کہ فٹافٹ یہ الیکشن کروا دے!

عدالتی اقدامات پر نکتہ نظر کے اظہار کی گجائش ویسے بھی اب کم کم ہی ہے لیکن عسکری  اور خفیہ اداروں کی من مانیوں پر کچھ عرصے سے بات چیت کرنے کی کچھ آزادی میسر آ گئی ہے.

جہاں تک بات عسکری خفیہ اداروں کی ہو تو اس میں آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جس نے اپنی حدود سے زیادہ طاقت اپنے اندر جمع کر لی ہے جس سے ایک طرف تو سویلین ایجنسیوں کا بھٹہ بیٹھ گیا ہے اور دوسری طرف اس ایجنسی کے اندر ملک سدھار کا ایک اپنا 'وکھرا' آئیڈیا ہے جس کے مطابق سواۓ انکے تمام لوگ قابل مذمت ہیں.

اس ذہنیت کا ایک نمونہ سابق چیف جنرل احمد شجاع پاشا نے ایبٹ آباد کمیشن کے سامنے کیا. اگرچہ پاشا صاحب کی رخصتی کے بعد سے ایجنسی ایک قدم پیچھے ہٹی ہوئی ہے لیکن کچھ پتا نہیں کہ اس باسی کڑھی میں کب ابال آ جائے؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ملک جس بھنور میں پھنسا ہوا ہے اور سیکورٹی کے نئے تصورات طے  ہو رہے ہیں اور نئی سیکورٹی  ایجنسیوں کی تشکیل کے لئے کام ہو رہا ہے تو کیوں نہ اسی وقت نئی حدود و قیود بھی طے کر لی جائیں اور پرانی طاقتوں کی کاٹ چھانٹ بھی کر لی جائے.

گزشتہ سال پیپلز پارٹی کے سینیٹر جناب فرحت اللہ بابر نے آئی ایس آئی کی میں اصلاحات کے حوالے سے سینیٹ میں ایک پرائیویٹ بل پیش کیا تھا لیکن اس حکومت کی کارکردگی اور شائد کچھ پرانے خوف کی بدولت بھی کسی نے اس کو گھاس نہیں ڈالی. حتیٰ کہ انکی پارٹی نے بھی انکے اس سلسلے میں کوئی مدد نہ کی اور پھر یہ بل واپس لے لیا گیا.

اب کی بار یہ ہمت عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر جناب افراسیاب خٹک صاحب نے کی ہے اور انکی جانب سے سینیٹ میں ایک خصوصی رپورٹ پیش کی گئی ہے جس میں آئی ایس آئی کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلیوں کے لئے تجاویز دی گئی ہیں.

ان تجاویز میں ایک اہم بات جو کی گئی ہے اسکے مطابق اس ایجنسی کے لئے عسکری سربراہ کے ساتھ ساتھ ایک سویلین سربراہ کو بھی مقرر کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے.

اس تجویز کو اگر دیکھا جائے تو اس کے بڑے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور اس ایک عمل سے آئی ایس آئی کی سوچ میں ایک سویلین تناظر بھی شامل ہو جائے گا جس سے کئی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے.

لیکن مجھے ان تجاویز کا مستقبل بھی کوئی خاص روشن نہیں نظر آتا جو حکومت ابھی تک نیا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نامزد نہیں کر سکی اور جسکی ریڑھ کی ہڈی کا یہ عالم ہے کہ وہ آرمی چیف کے حوالے سے پھیلنے والی افواہوں کا گلا نہیں گھونٹ سکی اور آرمی چیف کو خود ہی اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان کرنا پڑا جسکا حکومت نے خیرمقدم کیا. خیر مقدم کیا تھا ، اظہار تشکر ہی سمجھ لیجئے کہ شکر ہے ہمارے سر نہیں پڑا یہ اعلان!

اس لئے مجھے نہیں لگتا کہ یہ حکومت ISI جیسے ادارے میں تبدیلیوں کے لئے پیش کی گئی تجویز پر اظہار خیال تو کجا منہ سے بھاپ بھی نکال پاۓ  گی. یہ پھنکاریں  اور بڑھکیں اپوزیشن میں رہتے ہوئے ہی اچھی لگتی ہیں اور خیر ابھی جمہوری حکومتوں کی کارکردگی کا معیار اس سطح پر پہنچا بھی نہیں ہے کہ وہ کسی اور ادارے پر انگلی اٹھائیں.

لیکن یہ موقعہ بہرحال اچھا ہے کیوں کہ نئی حکومت تازہ تازہ وارد ہوئی ہے اور اب کچھ ہی دنوں  میں نئے آرمی چیف کے نام کا بھی اعلان کرنے جا رہی ہے. اگر معاشی میدان میں کچھ کارکردگی دکھا دی جائے تو اداروں میں تبدیلیوں کے لئے ایک مظبوط بنیاد بھی میسر آ جائے گی اور حکومت اپنے حق پر حق جما سکے گی!!

سول ملٹری تعلقات میں عدم  توازن نہ تو جلد ٹھیک ہونے والا مسئلہ ہے اور نہ ہی اسکے لئے کوئی شارٹ کٹ ہے. بلکہ اب سویلین حکومتوں کے سامنے اسکے ساتھ ساتھ باقی اداروں کی بھی آئینی حدود واضح کرنے کی ضرورت بڑھ رہی ہے لیکن وہ ایسا شجر ممنوع ہے جسکی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے سو موٹو کی تلوار سے ان ہاتھوں کے قلم ہونے کا خوف غالب آ جاتا ہے.


علی منیر

علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔