برفانی تیندوے کا تحفظ ۔ وادیٔ بھاشا میں لڑکیوں کی تعلیم کا ذریعہ
ہندوکش ہمالیہ کی دوردراز وادیوں میں جنگلی حیات کے محافظ علم کی روشنی بھی پھیلا رہے ہیں۔ ایک دہائی پہلے تک پاکستان کی وادیٔ بھاشا میں لوگ برفانی تیندوے کو صرف مُردہ حالت میں دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن اب یہی برفانی تیندوا جسے بگ کیٹ بھی کہا جاتا ہے، اس وادی میں علم کی روشنی پھیلنے کا سبب بن چکا ہے، جس سے خاص طور پر اس وادی کی لڑکیاں فیضیاب ہو رہی ہیں۔
تانیہ روزن جو کہ برفانی تیندووں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں، 2010ء میں جب کوہ پیمائی کی ایک مہم کے دوران وادیٔ بھاشا کے ایک گاؤں سبری گئیں، تو انہیں پتا چلا کہ اس گاؤں کی کوئی لڑکی اسکول نہیں جاتی۔
وادیٔ بھاشا چین کے صوبے سنکیانگ سے ملحق، ہندوکش ہمالیہ کی قراقرم پٹی میں بلتستان کے علاقے میں واقع ہے۔ تانیہ روزن تاجکستان میں پینتھر Panther کے لیے کام کر رہی ہیں۔ یہ تنظیم برفانی تیندووں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ انہوں نے The Third Pole کو بذریعہ ای میل بتایا کہ وادی کی خوبصورت چھوٹی چھوٹی لڑکیاں اپنی کھڑکیوں سے ہمیں دیکھ رہی تھیں، اور مجھے یہ جان کر حیرت کا ایک جھٹکا سا لگا کہ یہ لڑکیاں جو ہمیں حیران کن نظروں سے دیکھ رہی ہیں، ان میں سے کوئی اسکول نہیں جاتی۔ پوچھنے پر لوگوں نے بتایاکہ ان بچیوں کے والدین نہایت غریب ہیں اور وہ ان کی کتابوں، یونیفارم یہاں تک کہ جوتوں کا خرچ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔
چند ہی لمحوں میں ہاتھ میں پکڑے لفافے کی پشت پر تانیہ نے حساب کرکے اندازہ لگایا کہ ان تمام چھہتّر لڑکیوں کی کتابوں، جوتوں اور یونیفارم کے لیے صرف اکیس سو ڈالر کی کی رقم درکار ہوگی۔ ایک لمحے کی دیر یاکسی ہچکچاہٹ کے بغیر تانیہ نے اس رقم کی فراہمی کا فیصلہ کیا اور بلتستان کی جنگلی حیات کی ترقی و تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم بلتستان وائلڈ لائف کنزرویشن اینڈ ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن (BWCDO) سے وابستہ غلام محمد کو جو اس دورے میں تانیہ کے ہمراہ تھے، اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ وہ اس رقم کا انتظام کردیں گی۔
تانیہ کی سات سالہ ننھی بیٹی بیانکا وہ پہلی فرد تھی جس نے اس مقصد کے لیے رقم عطیہ کی۔ تانیہ کے مطابق، مقامی افراد کو یہ یقین دلانا بہت ضروری تھا کہ برفانی تیندوے کے تحفظ کے لیے کام کرنے کے باوجود ان کی پہلی ترجیح مقامی آبادی اور ان کے ذریعۂ معاش کا خیال رکھنا ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ گاؤں کا تقریباً ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ برفانی تیندوا اس کے مویشیوں کا دشمن ہے۔
لیکن صرف سبری ہی واحد گاؤں نہیں تھا جہاں کی لڑکیاں اسکول نہیں جاتی تھیں، بلکہ آس پاس کئی ایسے گاؤں تھے جہاں کی زیادہ تر لڑکیاں تعلیم سے محروم تھیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ تانیہ روزن نے دیکھا کہ جہاں جہاں اسکول ہیں وہاں بھی یا تو اساتذہ نہیں ہیں یا پھر وہاں صرف لڑکوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔
خوش قسمتی سے اسی سال تانیہ روزن کو ایک عالم تعلیم جینیویئیو اور ان کے کوہ پیما شوہر ڈاؤگ شابوٹ کے بارے میں علم ہوا کہ وہ گلگت بلتستان میں ایک ایسی تنظیم قائم کرنا چاہ رہے تھے جو لڑکیوں کو اعلٰی تعلیم تک رسائی دے سکے۔ تانیہ نے انہیں وادیٔ بھاشا کی ان لڑکیوں کے بارے میں بھی بتایا جو اسکول نہیں جا سکتی تھیں۔ آج اس جوڑے کی وجہ سے بارہ دیہاتوں کی تقریباً پانچ سو انسٹھ لڑکیاں اور ایک سو اٹھاون لڑکے مختلف اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ، ان کے قائم کردہ ”اقراء فنڈ“ سے بیس ٹیچرز کوبھی مختلف اسکولوں میں تعینات کیا جاچکا ہے۔
کچھ لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں اپنے خاندان کی پہلی خوش قسمت نسل کہا جائے گا، جو اسکول میں پڑھنے کا موقع مل سکا ہے۔ جینیوی نے ای میل کے ذریعے تفصیل بتائی کہ ان لڑکیوں کے والدین بالکل بھی پڑھ لکھ نہیں سکتے۔ انہوں نے کہا کہ 2007ء میں پہلی مرتبہ ان علاقوں کا سفرکیا تھا اور ا س سفر نے اس خطے کے ساتھ ان کا تعلق ہمیشہ کے لیے جوڑ دیا۔ اب وہ سال میں کئی مرتبہ یہاں آتی ہے۔
شفقت حسین جو اس وادی میں دو دہائیوں سے کام کررہے ہیں، انہوں نے ہی وادیٔ بھاشا میں برفانی تیندوے کے تحفظ کے منصوبے کی بنیاد ڈالی تھی، ان کے مطابق مقامی آبادی شدید غربت کا شکار ہے۔ آبادی کا انحصار کھیتی باڑی اور مویشی پالنے پر ہے۔ انہوں نے کہا ’’ایک اوسط خاندان نو یا دس افراد پر مشتمل ہوتا ہے، جبکہ وسائل بہت محدود ہیں۔ ذرائع نقل و حمل کی صورتحال بھی بہت خراب ہے ،ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا بے حد دشوار ہے۔ یہاں قریب ترین سرکاری اسکول بھی میلوں کے فاصلے پر ہے۔ اگر والدین اپنے بچوں کو تعلیم دلانا بھی چاہیں تو یہ ان کے لیے صرف ایک خواب ہی ہوسکتا ہے، ایسا خواب جو کبھی شرمندہ ٔتعبیر نہیں ہوتا۔ ‘‘
شفت حسین کو احساس ہے کہ یہاں بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کے لیے مقامی آبادی کو مدد درکار ہے، لیکن ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ہم یہاں جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کر رہے ہیں اور ہم اپنا یہ کام نہیں روک سکتے، لیکن ہم نے اب یہ فیصلہ کیا ہے کہ دیگر مسائل پر بھی توجہ دیں گے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اصل مسئلہ معلومات کی کمی نہیں بلکہ محدود وسائل اور مہارت کا نہ ہونا ہے۔
1999ء میں شفقت حسین نے جو اس وقت امریکا کے ٹرنٹی کالج میں بشریات کے پروفیسر تھے، بلتستان کے دو دیہاتوں میں برفانی تیندوے کے تحفظ کے لیے انشورنس کا منصوبہ شروع کیا، جس کے لیے مالی تعاون برطانیہ کی رائل جغرافیائی سوسائٹی اور امریکا کی برفانی تیندوے کے تحفظ کی تنظیم نے فراہم کیا تھا۔ یہ منصوبہ اب 22 دیہاتوں تک پھیل گیا ہے۔ اس منصوبے سے ناصرف برفانی تیندوے کو تحفظ فراہم کیا گیا بلکہ اس کے تحت 2006ء سے 2012ء تک مقامی لوگوں کو 206 مویشیوں کے لیے زرتلافی بھی ادا کیا گیا جو برفانی تیندووں کا شکار بنے تھے، تاکہ گاؤں والے تیندوے کے شکار سے باز رہیں کیونکہ وہ برفانی تیندووں کو اپنی بکریوں اور دیگرمویشیوں کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔
تیندوے کے تحفظ کی تنظیم BWCDO سے وابستہ غلام محمد نے بتایا کہ اردگرد کے گاؤں میں تقریباً پندرہ سو سے سولہ سو گھرانے آبادہیں، ان میں سے چالیس فیصد نے اپنے مویشیوں کا بیمہ کروالیا ہے، لیکن مقامی افراد کی بہت بڑی تعداد اب بھی ایسی ہے جو اس عمل سے دور ہے، کیونکہ یہ ان کی استطاعت سے باہر ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی اس منصوبے کو کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ اب ایسے ہی منصوبے چین، بھارت اور نیپال میں بھی شروع کیے جارہے ہیں۔
پینتھرا تنظیم کے ماہرین کے اندازوں کے مطابق بارہ ایشیائی ممالک کے جنگلات میں ساڑھے تین ہزار سے سات ہزار کے درمیان برفانی تیندوے موجود ہیں۔ ان میں زیادہ تر ہندو کش ہمالیہ میں پائے جاتے ہیں۔ ان بلند پہاڑوں میں برفانی تیندوے یا بگ کیٹ کی نسل، پینتھرا یونیکا کی نشان دہی کرنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ یہ تیندوے ان پہاڑوں کے عمودی ڈھلانوں پر رہتے اور سفر کرتے ہیں جو عموماً سطح سمندر سے تین ہزار سے پانچ ہزار چار سو میٹر بلند ہیں۔
برفانی تیندوے کی نسل شدید خطرات سے دوچار ہے کیونکہ اس کی کھال غیر قانونی مارکیٹ میں انتہائی قیمتی سمجھی جاتی ہے۔ چرواہے بھی اپنے مویشیوں کو اس سے بچانے کے لیے اسے ماردیتے ہیں۔ برفانی تیندووں سے متعلق درست صورتحال جاننے کے لیے 2003ء میں شفقت حسین نے ایک سروے کیا تھا،جس سے یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان میں چترال ،گلگت بلتستان میں جبکہ خیبر پختونخواہ میں دیر، سوات، کوہستان، اور آزاد کشمیر میں مظفرآباد کے علاقوں میں ڈھائی سو سے ساڑھے چار سو برفانی چیتے موجود ہیں۔ حال ہی میں ایک اور سروے کیا گیا ہے جس کے نتائج مرتب کیے جا رہے ہیں۔ جس کے بعد تحفظ کے لیے کام کرنے والے ماہرین جلد ہی اندازہ لگانے کے قابل ہوجائیں گے کہ ان کی کوششیں اس برفانی تیندوے یا بگ کیٹ کے تحفظ میں کتنی مددگار ثابت ہورہی ہیں، جسے وہ پیار سے پہاڑی بھوت بھی کہتے ہیں۔
تحریر : زوفین ابراہیم
ترجمہ : شبینہ فراز
بشکریہ: تھرڈ پول