...پڑھنا منع ہے
میری سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ مجھے ایٹم بم پر باندھ کے ہندوستان پر پھینک دیا جائے۔ اگر آپ کے دل میں اس قسم کی کوئی خواہش یا اس سے ملتی جلتی کوئی خوہش کبھی پیدا نہیں ہوئی تو بہتر ہو گا کہ آپ اس تحریر کو مت پڑھیں کیونکہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے۔
لیکن اگر ایسی خواہشیں آپ کے دل میں سر اٹھاتی رہتی ہیں تب آپ اس تحریر کو ضرور پڑھیے، لیکن اس صورت میں بھی اس تحریر کو پڑھنے سے زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ آپ اس پیج کو بند کریں، گوگل کھولیں اور اس پر اپنے گھر یا دفتر سے قریب ترین ماہر نفسیات کا پتہ معلوم کریں اور جلد از جلد اس سے اپنا معائنہ کروائیں۔
اگر اب بھی آپ میرے اس نیک مشورے پر عمل کرنے کے بجائے اس بلاگ کو پڑھتے چلے جا رہے ہیں تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ لا علاج ہیں دوسری یہ کہ آپ کے گھر یا دفتر کے نزدیک کسی عالم نفسیات (Psychologist) کا کلینک نہیں ہے۔ اور اگر یہ دونوں باتیں درست نہیں اور پھر بھی آپ پڑھتے پڑھتے یہاں تک چلے آئے ہیں تو پھر یہی ہو سکتا ہے کہ آپ ایک سائیکولوجسٹ کا پتا ڈھونڈنے کے بعد اس لیے یہ تحریر پڑھ رہے ہوں تاکہ اس پاگل کے بارے میں جان سکیں جو اپنی اور اپنے ساتھ لاکھوں انسانوں کی جان کے درپے ہے اور اسے کسی ماہر نفسیات تک پہنچا سکیں جو اس طرح کی خواہشات رکھنے والوں کا علاج کر سکتا ہو۔
اگر یہ آخری والی بات درست ہے اور آپ کسی عالم نفسیات کا پتا بتانے کے چکر میں یہ سب کچھ پڑھ رہے ہیں تو بہتر ہوگا کہ ایک سے زیادہ علماۓ نفسیات کا پتا چلائیں بلکہ علماۓ نفسیات کی کسی بین الاقوامی تنظیم سے رابطہ کریں کیونکہ اس قسم کی خواہشیں رکھنے اور ان کا بر سر عام اظہار کرنے والے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ سرحد کے اس پار ہندوستان میں بھی اچھی خاصی تعداد میں پاۓ جاتے ہیں۔
پاکستان کے ایک میڈیا گروپ کے کمانڈر انچیف اور ہماری نظریاتی سرحدوں کے محافظ کے ان زرین خیالات سے تو میں بہت عرصے سے واقف تھا لیکن بہت سے مجید نظامی سرحد کے اس پار بھی بستے ہیں۔
اس بات کا انکشاف مجھ پر اس وقت ہوا جب میں نے امریکہ جاتے ہوئے لندن میں دیے جانے والے پاکستانی وزیر اعظم کے بیان کے بارے میں ہندوستانی اخبارات کی خبریں اور تجزیے پڑھے۔
میاں نواز شریف نے اس بیان میں امریکہ سے کشمیرکے مسئلے پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ بین الاقوامی برادری کو اس تنازعے کے حل کی جانب توجہ اس لیے بھی دینی چاہئے کہ اس تنازعے کے دونوں فریق نیوئکلیر طاقتیں ہیں۔
ہندوستان کے میڈیا میں بہت سے لکھنے والوں نے اس بیان کو کشمیر کے مسئلے پر ایٹمی جنگ کی دھمکی سے تعبیر کرتے ہوئے اسی طرح کے غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کیا جس طرح کسی صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے"مٹی پاؤ فیم" کے چوہدری شجاعت نے کہا تھا کہ ایٹمی ہتھیار شب برات پر چلانے کے لیے تو نہیں بنائے، جنگ ہو گی توچلا دیں گے۔
جس طرح چوہدری صاحب ایٹمی ہتھیاروں کو پٹاخے نہ کہتے ہوئے بھی پٹاخے کہہ رہے تھے، اسی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیتے ہوئے ہندوستان کے میڈیا نے وزیر اعظم کے ایک روایتی بیان کے بھوسے میں سے ایٹمی جنگ کی سوئی تلاش کر لی۔ اس عمل کے دوران ان تمام بیانات کو نظر انداز کر دیا گیا جن میں وزیر اعظم اور حکومت کے مختلف عہدے دار ہندوستان سے تعلقات کی بہتری اور تجارت میں اضافے کے خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
جب بھی کبھی ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری یا اس کے لیے اقدامات کا ذکر چھڑتا ہے تو کچھ ایسے واقعات رونما ہونے لگتے ہیں کہ تعلقات کی بہتری تو ایک طرف، دونوں جانب کی تمام توجہ انہیں موجودہ سطح پر برقرار رکھنے پر فوکس ہو جاتی ہے اور ساری توانائی اسی کام میں صرف ہو جاتی ہے۔
اس کوئی شبہ نہیں ہے کہ بارڈرکے دونوں طرف وہ لابی نہایت مضبوط ہے جو دونوں ممالک کے درمیاں جنگ یا کم سے کم تعلقات میں بہتری نہ ہونے دینے میں اپنا فائدہ دیکھتی اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر طرح کے حربے استعمال کرتی ہے۔
ان حربوں میں کنٹرول لائن پر فائرنگ اور دہشت گرد حملوں کے ساتھ ساتھ میڈیا میں موجود ہم خیال لوگوں کی مدد سے ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرنا ہے جس میں دونوں ملک کسی ٹھوس اور فائدہ مند بات چیت کی طرف نہ بڑھ سکیں۔
عام طور پر ہندوستان کی طرف سے اس طرح کے اقدامات کرنے کا الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے، لیکن اسے الیکشن کا بخار سمجھیں یا کچھ اور، ہندوستان کے میڈیا کا کردار اس دورے کے حوالے سے کافی غیر ذمہ دارانہ رہا ہے۔
کنڑول لائن پر کشیدگی اور دہشت گرد حملوں کو روکنا بہت ضروری ہے لیکن اتنا ہی ضروری ہندوستانی میڈیا کی طرف سے محتاط رویے کا اپنایا جانا ہے۔ کیوں کہ مذاکرات میں بین الاقوامی برادری کو ثالثی کا کردارادا کرنے دینے سے مسلسل انکارپر ہندوستان کا موقف اپنی جگہ لیکن وزیر اعظم کے بیان میں ایٹمی جنگ کی دھمکی ڈھونڈھ لینا کشمیر تو کیا کسی بھی مسئلے کے حل میں مدد نہیں دے سکتا۔
مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہئیے یا شملہ معاہدے کے مطابق یہ بحث ابھی چلتی رہے گی لیکن یہ بات طے ہے کہ بین الاقوامی برادری کی ثالثی کی صورت میں بھی یہ مسئلہ آخر کار ہندوستان اور پاکستان کے بیچ بات چیت اور امن کا راستہ تلاش کرنے ہی سے حل ہو سکتا ہے۔
امریکہ یا کسی اور ملک کا کردار دونوں ملکوں کو علیحدہ یا اپنے دائیں اور بائیں بازو ایک میز پر بٹھانے تک تو ہو سکتا ہے لیکن کشمیر پر کوئی قابل قبول حل دونوں پڑوسی ملکوں کو ہی ڈھونڈنا ہو گا اور حل بھی ایسا جو ان دونوں کے ساتھ ساتھ عام طور پر مذاکرات سے بارہ پتھر باہررکھے جانے والے کشمیری عوام کے لیے بھی کو بھی قبول ہو۔
رہی بات امریکہ کی تو میاں صاحب تو کشمیر پر امریکہ کے مصالحتی کردار کی معصوم خواہش لیے وائٹ ہاؤس گئے تھے جس کا اظہار معلوم نہیں انہوں نے صدر اوبامہ کے سامنے کیا یا نہیں لیکن صدر اوباما نے کچھ ایسی بات ضرور کی ہوگی کہ جب سے میاں صاحب وائٹ ہاوس سے ہو کر آئے ہیں انہیں "ہمیں اپنا گھر صحیح کرنا چاہیے" کی رٹ لگی ہوئی ہے۔
یہ عقل اگر امریکی ماہر نفسیات کے علاج سے آسکتی ہے تو میں مشورہ دوں گا کہ سرحد کے دونوں طرف جنگی جنوں پھیلانے والوں کو وائٹ ہاؤس کا ایک ایک چکر لگوانا دونوں ملکوں کی کشمیر پالیسی کا حصہ ہونا چاہئیے۔ لیکن مسئلہ صرف اتنا ہے کہ بادام کتنے بھی کھا لیے جائیں عقل دھوکہ کھا کر ہی آتی ہے۔
ہندوستان اور پاکستان دونوں کئی جنگیں لڑنے کے بعد فتح کا دھوکہ کھا چکے ہیں حالانکہ جنگ میں تباہی کے علاوہ آج تک کوئی نہیں جیتا۔ ہندوستانی میڈیا کو بھی عقل کے ناخن لینے چاہئیں اور جنگ کے جنون سے باہر نکلنا چاہئے ورنہ وہ ایسی تحریریں چھاپتا رہے گا جنہیں اول تو چھاپنا ہی نہیں چاہیے اور اگر چھاپنا بھی پڑے تو ان پر لکھ دینا چاہئے کہ 'پڑھنا منع ہے'۔
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔