آج کے دور کو معلومات کا دور کہا جاتا ہے- یہاں چند باتیں ہیں جوسوچنے کی ہیں: وہ یہ ہیں کہ انسانی تہذیب کی ابتدا سے لیکر 2003 تک جو معلومات کا خزانہ جمع ہوا ہے، گوگل کے ایرک شمڈٹ کے مطابق آج کی انسانی نسل ہر دوسرے روز اس کے برابر معلومات تخلیق کررہی ہے-
ہر دوسرے روز! یہ ایک بے انتہا دلچسپ انکشاف ہے- یہ ساری کتابیں، اخبارات، رسالے، بلاگز، ٹیکسٹ، ای میل اور پتا نہیں کیا کیا- ذرا سوچئے، ہر دوسرے دن اس بڑی مقدار میں آج کے زمانے میں معلومات اکٹھا ہورہی ہیں ---- جتنی پوری انسانی تہذیب کے پاس اس صدی کے شروع تک موجود تھی-
پوری انسانی تاریخ کے بڑے حصّے میں لوگوں کی زندگیاں بغیر معلومات کے گزر رہی تھیں لہٰذا لوگوں کو اس کی قدروقیمت کا اندازہ نہیں تھا- ان معلومات کا حصول ہی انسان کی ترقی کا راز تھا: یہ جاننا کہ بخارکیوں ہوتا ہے اور اس کا علاج کیا ہے، کہاں، کب اور کیا فصل بوئی جائے، کون کون سی سبزیاں اور کھائی جاسکتی ہیں اور کون سی نہیں کھانی چاہئیں، نقشوں کو کیسے سمجھنا چاہئے، کتابیں کیسے پڑھنا چاہئے وغیرہ وغیرہ-
لیکن اب نہیں، اورشائد آئندہ بھی کبھی نہیں- اس پرانی دنیا کے مقابلے میں جہاں معلومات کی بے انتہا قلت تھی آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں معلومات کی فراوانی ہے.
جیسے جیسے معلومات کی نوعیت وسیع ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے ان کے حصول اور استعمال کا طریقہ بھی بدلتا جا رہا ہے- اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کے یہ کیسے پتا چلے گا کہ کیا زیادہ اہم ہے اور کیا نہیں-
جیسے کہ مصنف نیل گیمن نے اپنے حالیہ لیکچر میں لندن میں کہا تھا "چیلنج یہ نہیں کہ کونسا کمیاب پودا صحرا میں اُگتا ہے، بلکہ یہ پتہ لگانا ہے کہ جنگل میں اگنے والا مخصوص پودا کونسا ہے- یعنی ہمیں موجودہ معلومات کو استعمال کرکے وہ چیز ڈھونڈنی ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے-"
لیکن افسوس کہ پاکستان میں ہم ابھی تک اس کوشش کے ابتدائی مراحل میں ہیں کہ ہر بچّے کو اسکول بھیج سکیں جس میں ہم ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکے ہیں-
یہاں اہم بات یہ ہے کہ کامیاب اور ترقی یافتہ ملکوں میں تعلیم کو ہر چیز پر ترجیح دینے کا سوال مدتوں پہلے طے کر کے سسٹم کا حصہ بنا دیا گیا تھا- کیونکہ یہ بات بڑے پیمانے پر تسلیم شدہ ہے کہ تعلیم اور خواندگی کا ملک کی ترقی اور بہبود سے گہرا تعلق ہوتا ہے-
لیکن ایسا نہیں کہ صرف تعلیم کافی ہے- اس میں شک نہیں کہ پڑھا لکھا مرد یا عورت بغیر پڑھے لکھے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر زندگی گذارنے کا اہل ہے لیکن زیادہ تعلیم یافتہ شخص اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کرسکتا ہے- ایسا نہیں ہے کہ آدمی کے لئے صرف پڑھنا کافی ہے- بلکہ یہ بھی کہ وہ کیا پڑھتا ہے-
آپ جتنا زیادہ مینیجمنٹ، کیمسٹری اور قانون کے بارے مں پڑھیں گے اتنا ہی ان تمام میدانوں میں مہارت حاصل کرینگے- آپ تاریخ اور فکشن پڑھیں گے --لوگوں کے تجربات کی کہانیاں اور انسانی تہذیب اور اسکی حاصل کی ہوئی دانائی کی داستانیں-- تو آپ کا شمار ایک خواب دیکھنے والے شخص میں ہوگا-
خواب دیکھنے کی صلاحیت کو زندگی میں اتنی اہمیت نہیں دی جاتی ہے، خصوصاً پاکستان جیسے ملک کے معاشرے میں جہاں ٹیکنیکل مہارت کو ترجیح دی جاتی ہے-
اگر کوئی بچہ سمندری ڈاکوؤں اور سمندری عجیب الخلقت جانوروں، سندباد، اور اللہ دین کی کہانیوں میں یا دنیا بھر کی ناقابل یقین اور ناممکنات سے بھری ہوئی پرتخیل کہانیوں اور کارناموں میں ڈوبا رہتا ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا وقت ضایع کر رہا ہے-
زیادہ تر موقعوں پر لوگ اسے اپنی اسکول کی کتابوں پر زیادہ دھیان دینے کو کہتے ہیں-
میں اکثر اپنے جاننے والے لوگوں کو دیکھ کرحیران ہوتی ہوں، حالانکہ ان میں سے کچھ تو کافی کتابیں پڑھنے والے ہیں --جو کہ ایک اچھی بات ہے کیونکہ پڑھنے کی عادت لوگوں کو دانشمند اور الگ نقطہ نگاہ کا حامل فرد بناتی ہے-- لیکن وہ فکشن پڑھنے کو گھٹیا کام سمجھتے ہیں- لیکن فکشن پڑھنا معاشرے اور فرد دونوں کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کیونکہ آخر میں دونوں ایک دوسرے سے کچھ حاصل کرتے ہیں- اس کے لئے گیمن کے اقتباسات سے بہترمثال نہیں-
کئی دہائیوں تک چین میں کمیونسٹ پارٹی فکشن اورخاص طور پر سائینس فکشن کو بالکل برداشت نہیں کرسکتی تھی، حالانکہ یہ بات ایک ایسی سوسائٹی میں باعث تعجب تھی کہ جو سخت محنت، تن دہی اور چیزوں کی اصلیت میں یقین رکھتی تھی-
لیکن 2007 میں پارٹی نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ( Science Fiction and Fantasy Convention) سائنس فکشن اور فینٹسی کنونشن کا انعقاد کرنے کی پرزور حمایت کی، گیمن اس زمانے میں وہیں تھے. وہ بتاتے ہیں کےکہ انہوں نے ایک اعلیٰ افسر کو ایک کنارے لے جاکر پوچھا، کہ آخرایسا کیا بدل گیا ہے؟
"یہ تو بہت آسان بات ہے، چینی لوگ دوسروں کے بنائے ہوئے پلان پر بہترین طریقے سے کام کرسکتے ہیں گرچہ کہ ان میں بالکل نئی چیز بنانے یا ان میں جدت پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے ان میں نئی سوچ بھی بالکل نہیں ہے لہٰذا انہوں نے ایک وفد امریکہ بھیجا جو گوگل، مائکروسوفٹ، اورایپل جا کر ان لوگوں سے ملا اور بات کی تو ان کو پتہ چلا کہ وہ لوگ جو امریکہ کا مستقبل تعمیر کررہے تھے ان سب نے اپنے بچپن میں سائنس فکشن پڑھے تھے-"
"فکشن آپ کو ایک نئی دنیا کی سیر کراتا ہے" گیمن اس کے آگے کہتے ہیں، "اور ایک مرتبہ آپ دوسری دنیا کی سیر کر لیتے ہیں تو پھر آپ جس دنیا میں بڑے ہوئے ہیں اس میں کبھی مطمئن نہیں ہو سکتے اور مطمئن نہ ہونا ایک اچھی بات ہے، غیر مطمئن لوگ ہی دنیا کو بدلنے اور بہتر کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں اس کو اور زیادہ بہتر اور مختلف بنا دیتے ہیں"
ترقی حاصل کرنے کے لئے پہلے نئے خیالات اور نئے خواب دیکھنے پڑتے ہیں اور پھر ان کی تخلیق کرکے ان کو اصلیت کا روپ دیا جاتا ہے-
آپ جہاں کہیں بھی یہ پڑھ رہے ہیں، اپنے چاروں طرف دیکھیں، آپ محسوس کرینگے کہ ہر وہ چیز، جو انسان کی بنائی ہوئی ہے، جیسا کہ گیمن نے بھی اپنے لکچرمیں اشارہ کیا ہے، پہلے سے اس کا وجود نہیں تھا اسکو کسی نے سوچا اور پھر کسی نے تشکیل کی، اس کرسی سے لے کر جس پر آپ بیٹھے ہیں یا کوئی بھی ٹیکنولوجی سے متعلق شے جو آپ استعمال کررہے ہوں-
تو بچوں کو اسکول بھیجنے اور لکھانے پڑھانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ پاکستان --اور دنیا کا ہر دوسرا ملک-- اس ضرورت کو محسوس کرے کہ پڑھائِی میں مختلف النوع اور زہن و نظر کو وسعت دینے والی چیزوں کی ہمت افزائی کریں-
اس کو پبلک پالیسی بنانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا- مثلاً لائبریریاں قائم کرکے، اور یہ ذمہ داری والدین اور استادوں کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ تحفہ دیں- ایک بڑی تبدیلی لانے کی صلاحیت-
ہم سب کی خواہش یہی ہے وہ اپنی پڑھائی میں بہت اچھی کارکردگی دکھائیں، اسی لئے ہم سیکھنے کیلئے انکی ہمت افزائی کرتے ہیں- لیکن اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان مستقبل کو بدلنے میں کامیاب ہوں، یا جس طرح بھی اس کو بہترکرنے کی خواہش رکھتے ہوں تو ہمیں ان کو خواب دیکھنے کی ترغیب دینا چاہئے-
ترجمہ: علی مظفر جعفری