نقطہ نظر

املتاس۔ امید کا پھول

املتاس کا مزاج بھی منفرد ہے۔ خزاں میں پتے نہیں گرتے، بہار میں نکلتےنہیں۔

بہار کے اختتام اور برسات شروع ہونے سے پہلے کا موسم پودوں اور پھولوں کے لئے ظالم ہے۔ ابھی بہار کے ہنگامے سے دل بھرا ہی نہ تھا کہ گرمی نے وہ زور مارا کہ سب کو اپنی پڑ گئی اور سب لمبے دنوں کے لئے اپنے آپ کو تیار کرتے نظر آئے۔

لیکن اس مارا ماری میں بھی ایک دیوانہ امید کے پھول کھلاتا ہے اور ایسا انوکھا رنگ جماتا ہے کہ دیکھنے والے کا دل خوشی سے بھر جائے۔ اس ساحر کا نام ہے املتاس۔

املتاس نیپالی زبان کا لفظ ہے جو اب ھندی، اردو اور پنجابی میں بھی زیر استعمال ہے۔ یہ برصغیر کے طول و عرض میں قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔ اس کے بہت سے نام ہیں جو اس کے سراپے اور خواص کی بنا پر دئیے گئے ہیں، جیسے کہ سنسکرت میں ارگوادھا یعنی بیماریوں کو مارنے والااور راجا تارو یعنی شاہ اشجار۔

اس پیڑ کے عشق میں مبتلا ایک اور ملک تھائی لینڈ ہے جہاںاسے لاٹین والا درخت بھی کہتےہیں اوراسے قومی درخت کا درجہ دیا گیا ہے۔ کیرالہ نےبھی املتاس کے پھول کو ریاست کا نشان بنایا ہے۔

عام حالات میں اس کا قد پینتیس سے چالیس فٹ تک ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی بہت موافق حالات کے زیراثر یہ ساٹھ فٹ تک بھی جا نکلتا ہے۔اس کی بڑھوتری بہت ہی تیز رفتار ہوتی ہے، ایک سال میں کوئی ڈیڑھ سے دو میٹر۔ دیکھتے ہی دیکھتے بڑھ جانے کا محاورہ لڑکیوں کے علاوہ شاید صرف املتاس کے لئے ہی موزوں ہے۔

املتاس کا مزاج بھی منفرد ہے۔ ذرا سی دیر کے لئے بے لباس ہوتا ہے مگر پھر بھی سدا بہار نہیں۔ خزاں میں اس کے پتے نہیں گرتے اور بہار میں نکلتےنہیں۔ یہ بہار کے آخر میں گرتے اور گرمی کے آنے پر نکلتے ہیں ۔پت جھڑنے کے چند ہی دنوں میں اس کا ٹنڈ منڈ درخت باریک باریک ،چھوٹی چھوٹی ڈالیوں سے بھر جاتا ہے۔

تب ان پر موتیوں کی سی ننھی ننھی کلیاں نمودار ہوتی ہیںاور پھر تو رنگوں کی وہ کاریگری ہوتی ہے کہ اپریل کے آخر سے اگست آجاتا ہے پر املتاس ہے کہ تھکنےکا نام ہی نہیں لیتا۔

پتوں کے بغیر املتاس پر پیلے پھولوں کا انبار ایک الگ ہی منظر ہے جو اور کسی کے بس کی بات نہیں۔انگورکے گچھوں سے مشابہ ڈالیوں پر پھول اس ترتیب سے جڑے ہوتے ہیں کہ پہلے پورے کھلے، پھر ادکھلے اور آخر میں کلیاں۔

اس طرح ہمیں پھول کے چھوٹے سے جیون کا سفر ایک ساتھ دیکھنے کو ملتا ہے۔تبھی مئی جون کی چلچلاتی دھوپ میں بھی املتاس کا نظارہ سب کچھ بھلا کر اپنی طرف کھینچتا ہے۔

ابتدا میں نئے پتوں کا رنگ گہرا عنابی ہوتا ہے جو پھر بہت ہی تازہ سبز رنگ میں بدل جاتا ہےاور وقت کے ساتھ ساتھ گہرا ہوتا جاتا ہے۔اس کی چھاؤں گہری اور گھنی ہوتی ہے۔املتاس پر جب نئے پتے ہوں تو اس کے نیچےچھن کر آنے والی دھوپ میں عجیب سی،پیا من کو بھا جانے والی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ املتاس کی کاشت اور پرورش دونوں ہی اتنے آسان ہیں کہ شاید اس کے لئے درخت لگانے کا ارادہ ہونا ہی کافی ہے۔ زمین چاہے تیزابی ہو یا زیادہ نمکیات والی، سخت ہو یا بھر بھری اور ریتلی، یہ سبھی میں قدم جمانا جانتا ہے۔ ابتدائی دنوں کے بعد پیاس سے بھی لڑنا سیکھ لیتا ہے۔

سمندر کی نمکین ہواؤں کا مقابلہ بہت کم پیڑ کر پاتے ہیں مگر ساحلی شہروں کی شجرکاری کے لئے بھی یہ میدان مارلیتا ہے۔ انتہائی موزوں درخت ہے۔نرسری میں تیار کئے گئےکم از کم چھ ماہ کے پودے ہی لگانےچاہییں۔

نباتات کی دنیا کے تیسرے بڑے خاندان لیگیوم کا فرد ہونے کے ناطے ایک منفرد خوبی کا حامل ہوتا ہے جو ہوا میں موجود نائٹروجن گیس کو پودوں کے لئے قابل استعمال نائٹروجن کھاد این ایچ تھری  یا  این او تھری میں تبدیل کرنا ہے۔یہ کام اس کی جڑوں کا ہے جو جہاں پھیلیں وہاں کی زمین کے بھاگ جگا دیتی ہیں۔

املتاس کی لکڑی کا رنگ سرخی مائل بھورا ہوتا ہے۔ اس کے ریشے باریک اور باہم پیوست ہوتے ہیں لہذا اسے تعمیراتی اور فرنیچر سازی کے لئے موزوں خیال کیا جاتا ہے۔ اس پر پالش بھی عمدہ کی جاسکتی ہے۔ لکڑی کی مظبوطی کا ایک پیمانہ اس کے ایک کیوبک میٹر کا وزن بھی مانا جاتاہے جسے وڈ ڈینسیٹی کہتے ہیں ۔ املتاس اپنے ۹۶۰ کلوگرام وزن کے ساتھ اس معیار پر بھی پورا ہے۔

شیشم اس پیمانے پر ۷۷۰ کلوگرام کے ساتھ بہت پیچھے ہے۔ طب میں املتاس کااستعمال پاک و ہند کے طول و عرض میں صدیوں سےرائج ہے اور اس بے شمار امراض کی شفا کا جادو ہے۔ دنیا کے بہت سے جاگے ہوئے ممالک میں ان نسخاجات کی جدید علوم کی روشنی میں نہ صرف توثیق کی جارہی ہے بلکہ ان میں بہتری بھی لائی جا رہی ہے۔ہم بھی نجانے ایسی کتنی ہی ادویات استعمال کر رہے ہونگے جن میں وہ اجزا موجود ہونگے جو املتاس یا ہمارے دوسرےنباتاتی ورثےسے لئے گئے ہونگے؟ پر سانوں کی، اے گوریاں دا کم اے، او ہی کرن!

ماحول کو صاف کرنے کی منفرد صلاحیت ، تیز رفتاری سے ہر طرح کے موسمی حالات میں بڑھنا اورزمین کے اوپر اور نیچے بہت قیمتی بائیوماس اور لکڑی پیدا کرنا ایک درخت سے آپ اور کیا چاہتے ہیں؟ اگر پھر بھی ہم السٹونیا ، فائیکس بنجامانا اور کونوکارپس کا انتخاب کریں جن کا نا کوئی پھول ہے نہ پھل، نہ ان کی لکڑی کارآمد ہےنہ وہ ہمارے ماحولیاتی تنووع کا حصہ ہیں۔ تویہ کیا ہے ؟ نااہلی، بد دیانتی؟ اپنے وسیب سے لاعلمیت کی پھنے خانی؟ احساس کمتری یا پھر ےہ سب ہی؟

ترقی کی خواہش مند قومیں اپنے مسائل کے دیرپا اور مستقل حل قدرت کے  بے بہا خزانوں میں تلاش کرتی ہیں۔ لیکن اس کے لئے غور وفکرکرنے کے ساتھ ساتھ اپنا رشتہ قدرت سے جوڑنا پڑتا ہے۔

ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی نے کئی مسائل کو جنم دیا ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو تو سب پودے ہی آڑے ہاتھوں لیتے ہیں پر موٹر گاڑیوں کے دھوئیں میں موجود بھاری دھاتیں جیسے کہ لیڈ آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ وغیرہ  سب کے بس کی بات نہیں۔

ریاست ہائے متحدہ کی ایک ریاست ایریزونا کی یونیورسٹی میں کی گئی ایک ریسرچ نے یہ ظاہر کیا کہ املتاس ان سب خطرناک مرکبات سے فضا کو صاف کرتا ہے اور اس کی بڑھنے کی تیز رفتار شہروں پر سبز چھتری پھیلانے اور  فضائی آلودگی کو کم کرنے کا بہترین زریعہ ہے۔ مگر کیا پتہ ہم کب جاگیں؟ اور جاگیں گے بھی یا نہیں؟ ان کا جواب ڈھونڈنے املتاس تو چلنے سے رہا۔


سید قمر مہدی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔