دنیا

کینیڈا: پاکستانی نژاد خاتون سیاسی جماعت کی رہنما منتخب

چھتیس سالہ رعنا بخاری نے 431 ووٹ حاصل کرکے 15 سال سے مینیٹوبہ لبرلز کے رہنما جون جیرارڈ کو شکست دی۔

ونی پیگ: پاکستانی نژاد کینیڈین وکیل اور سیاست دان نے مغربی صوبے مینیٹوبہ میں ہفتے کے روز ہونے والی لبرل لیڈرشپ کنونشن کے دوران اپنی پہلی انتخابی کامیابی حاصل کرلی ہے۔

36 سالہ رعنا بخاری مشرقی مینیٹوبہ کے علاقے ونی پیگ میں پیدا ہوئیں جبکہ ان کے والدین، جو پاکستان سے کینیڈا منتقل ہوئے تھے، کی جانب سے چلائے جانے والے پولٹری فارم میں پلی بڑھیں۔

رعنا بخاری نے کنونشن کے دوران 431 ووٹ حاصل کرکے پارٹی کی سب سے بڑی پوزیشن حاصل کی۔ پہلے راؤنڈ میں فتح حاصل کرنے کے لیے کم از کم 430 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔

اسی جیت کے ساتھ وہ مینیٹوبہ کی پہلی پاکستانی نژاد صوبائی رہنما بن گئی ہیں۔ وہ پارٹی کی اگلے صوبائی الیکشن میں رہنمائی کریں گی جو کہ متوقع طور پر 2016ء کے آغاز میں ہوں گے۔ انہوں نے 15 سال سے اس منصب پر قیادت کے فرائض سرانجام دینے والے جون جیرارڈ کو شکست دی۔

اپنی تقریر کے دوران انہوں نے پارٹی ممبران سے کہا 'یہ ہماری جماعت کے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔ یہ ہمارے صوبے کے بڑھنے کا وقت ہے۔ ابھی بہت کام کیا جانا باقی ہے لیکن میں اس چیلنج کے لیے تیار ہوں۔'

اس مو قع پر حمایتیوں کے نعروں کی گونج کے درمیان رعنا بخاری کا کہنا تھا 'اگر ہم کچھ نیا پیش کرتے ہیں، اگر ہم نئی طرح کی سیاست کرتے ہیں، اگر ہم لوگوں میں امید پیدا کرتے ہیں جسے میرے جیسے خاندان اس صوبے کی روح مانتے ہیں، پھر مل جل کر ہم مینیٹوبا کو بدل سکتے ہیں۔'

تاہم رعنا کی زندگی ہمیشہ سے ہی اتنی پرکشش نہیں تھی۔ 2000ء میں انہیں اپنا گھر فروخت کرنا پڑا اور انہیں اپنے وہاں سے باہر نکال دیا گیا۔

فیملی 2002ء میں پاکستان واپس آگئی اور 2006ء تک قیام کیا۔ تاہم اس دوران ان کی زندگی نے رعنا کے دنیا اور اس میں ان کے کردار کے حوالے سے خیالات کو ہمیشہ کے لیے تبدیل کردیا۔

رعنا نے یونیورسٹی آف مینیٹوبہ سے کریمنولوجی اور سائیکالوجی میں دو ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ تعلیم کے دوران انہوں نے سیاست امور پر آگاہی حاصل کی جبکہ کمیونئی کے معاملات میں بھی دلچسپی لینا شروع کی۔

انہوں نے اس سے قبل پاکستان اور فلپائن میں سیلاب، مشرقی افریقہ میں قحط اور ہیٹی میں زلزلے کے حوالے سے فنڈز جمع کرچکی ہیں۔

منتخب ہونے کے بعد وہ مینیٹوبہ لبرلز کی کم عمر ترین رہنما بن گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مینیٹوبہ کی پارٹی کی قیادت کرنے والی جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والی پہلی رہنما بھی بن گئیں۔