پلاسٹک ماحول
یونیورسٹی آف کولمبیا اور ییل یونیورسٹی کی بد ترین ماحولیاتی حالات کے ضمن میں کی گئی تحقیق کے مطابق جو کہ ورلڈ اکنامک فورم 2012 میں پیش کی گئی، 130 ممالک میں پاکستان کا نمبر 120 واں تھا
اس 'تمغے' کی چمک دمک میں اضافہ پلاسٹک شاپرز بھی کرتے ہیں جن کا استعمال کرتے ہوۓ ہم ماحول پر اسکے اثرات سے بالکل غافل ہیں اگرچہ خالی میدانوں میں لگے کوڑے کے ڈھیر پر، کچرا کنڈیوں سے ابلتے اور کھلے نالوں پر تیرتے پلاسٹک شاپر کے تھیلوں پر اس سال کے آغاز میں پابندی لگا دی گئی تھی.
لیکن شاپرز کا استعمال پاکستان کی گلیوں میں کھلی تهڑا دکانوں سے لے کر بڑے بڑے شاپنگ سینٹرز تک میں ہوتا ہے. سبزی کے لئے استعمال ہونے والی ٹوکریاں اب شاز ہی نظر آتی ہیں. پاؤ لیموں بھی لو تو شاپر میں ہی ملتا ہے جو گھر میں لا کر کوڑے میں ڈال دیا جاتا ہے.
اسی طرح سے بازار سے جو بھی چیز خریدنے جائیں اسے لایا شاپر میں ہی جاتا ہے جسکا آخری مقام گھر کا کوڑے دان ہی بنتا ہے. گھروں میں سودا سلف لانے کے لئے جو کپڑے کے تھیلے استعمال ہوتے تھے وہ اب نظر نہیں آتے اب پتا نہیں اسکی وجہ ہماری قومی سہل پسندی ہے یا کیا لیکن اس ایک عادت کے بدلنے کی وجہ سے ہمارا ماحول خراب ہو رہا ہے کیوں کہ پلاسٹک کے تھیلے پانی یا مٹی میں اس نامیاتی عمل سے گزرنے میں سیکڑوں سال بھی لگا سکتے ہیں جس سے دوسری اشیاء ٹوٹ کر مٹی یا پانی میں مل جاتی ہیں اور ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتیں بلکہ حیاتیاتی عمل میں معاون ہی ثابت ہوتی ہیں.
کوڑے کرکٹ کو ٹھکانے لگانے کے لئے کسی مربوط نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے یا تو یہ پولیتھین شاپر خالی پلاٹوں میں پڑے ہوتے ہیں یا نالوں اور گٹروں میں جا کر انکی بندش کا سبب بنتے ہیں. اگرچہ اب لاہور میں ایک غیر ملکی کمپنی کو پاکستان کے عوام کا کوڑا ٹھکانے لگانے کا ذمہ ملا ہوا ہے لیکن باقی تمام ملک پاکستانی انتظامیہ کے ہی رحم و کرم پر ہے جسکا نتیجہ آپکو چوکوں اور بازاروں میں ابلتے ہوۓ گٹر، اور بدبو کے ڈھیر کوڑوں کی صورت میں نظر آتا ہے.
بہت ہوا تو گھروں سے کوڑا اکھٹا کرنے والے ان شاپرز کو لیجا کر زمین میں دبا دیتے ہیں یا بڑے بڑے گڑھے کھود کر ان میں جمع کر کے آگ لگا دی جاتی ہے دونوں ہی صورتوں میں یہ غیر معیاری پولیتھین شاپرز ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں. یہ پلاسٹک کے شاپرز چند ہی صنعتوں میں ریسائیکل کر کے کسی اور مقصد کے لئے استعمال میں لائے جاتے ہیں ورنہ بہت بڑی تعداد کا مقدر یہی گٹر اور پلاٹس ہوتے ہیں. انکے بڑے پیمانے پر استعمال کی وجہ انکی پیدواری لاگت کی کمی اور لوگوں کی سہولت شامل ہے. جبکہ کاغذ کے تھیلے اپنی تیاری کے لئے ایک طرف تو درختوں کے کٹنے میں اضافہ کا باعث ہوتے ہیں جبکہ انکی پیداواری لاگت بھی خاصی زیادہ ہوتی ہے. اس وجہ سے شاپرز کے استعمال میں کمی نہی لائی جا سکی.
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر سال اربوں پلاسٹک کے تھیلے کوڑے کی نظر ہوتے ہیں جنھیں اگر ایک سرے سے دوسرے شاپر کے سرے سے باندھا جائے تو اس رسی نما پلاسٹک کو دنیا کے گرد کئی مرتبہ گھمایا جا سکتا ہے.
دوسری طرف دیکھا جائے تو جیسے جیسے ہمارے ملک میں بوتل میں بند پانی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے ویسے ہی کوڑے میں اس پلاسٹک کی بھی مقدار میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا براہ راست اثر ہمارے ماحول پر پڑتا ہے.
اگرچہ حکومت نے ان غیر معیاری پلاسٹک شاپرز پر پابندی لگا دی ہے سواۓ اس قسم کے پلاسٹک شاپرز اور بیگز کے جن کی تیاری میں ایک تا تین فیصد آولفین نامی کیمیائی مرکب استعمال ہوا ہو. اس کیمیائی مرکب کی بدولت پلاسٹک کے شاپرز نامیاتی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر ماحول پر کم بوجھ ڈالتے ہیں لیکن عام تھیلے بنانے والے کاروباری حضرات کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس قسم کے تھیلوں کو بنانے کا عمل تقریباً ملتا جلتا ہی ہے لیکن یہ ماحول دوست قسم زیادہ پیداواری لاگت کی وجہ سے قابل اختیار نہیں، ہاں اگر حکومت آولفین نامی کیمیائی مرکب پر عائد 6 فیصد ڈیوٹی ختم کر دے تو انکی پیداواری لاگت بھی عام تھیلوں کے قریب آ جائے گی.
ایک اندازے کے مطابق اگلے سالوں میں پاکستان میں پلاسٹک بیگز کا نوے کی دہائی کے آغاز میں ہونے والا 12 بلین سالانہ کا استعمال بڑھ کر تقریباً 112 بلین تھیلے سالانہ تک پہنچ جائے گا یہ اضافہ تقریباً 15 فیصد سالانہ کے حساب سے ہو رہا ہے.
پلاسٹک کا کوڑا ویسے تو مجموعی طور پر ہی ماحول کے لئے نقصان دہ ہے لیکن پلاسٹک کے تھیلے اور شاپرز اپنے ہلکے وزن اور ہوا کے زور پر بکھرنے کی صلاحیت کے سبب نہ صرف حکومت بلکہ عوام کی سطح پر بھی عملی اقدامات کا متقاضی ہے.
کیوں نہ روزانہ کی سبزی کچھ ہی عرصے قبل متروک ہونے والی ٹوکریوں کے ساتھ خریدنے جایا جائے جس سے ایک فرد مہینے میں تقریباً کلو آدھا کلو شاپرز کی بچت کر لے گا. مہینے کا راشن خریدنے کے لئے ایک دفعہ کپڑے کے تھیلے خرید لئے جائیں جو سال ہا سال قابل استعمال بھی رہیں گے اور ماحول دوست بھی ہیں ایسے تھیلے میں نے کچھ بڑے سپر اسٹورز میں دیکھیں ہیں، صرف انکے استعمال کو وسیع پیمانہ پر پھیلانے کی ضرورت ہے.
یہ تو صرف چند خیالات ہیں، لیکن آپ اگلی دفعہ شاپر کو پکڑنے سے پہلے اسکی افادیت اور اسکے نقصان کا موازنہ کریں گے تو خود ہی کوئی راہ سوجھ جائے گی. یہ ماحول ویسا ہی بنے گا جیسا ہم اسے بنانا چاہیں گے فیصلہ آپکا ہے کہ ماحول کو پلاسٹک کا بنانا ہے کہ نہیں.
علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔