پاکستان

انسدادِ دہشت گردی آرڈیننس اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج

ریٹائرڈ پولیس انسپیکٹر جنرل ایڈوکیٹ سلیم اللہ خان جو نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی ہے کہ اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دیا جائے۔

اسلام آباد: حکومت کی جانب سے حال ہی میں جاری کیے جانے والے انسدادِ دہشت گردی آرڈیننس پروٹیکشن آف پاکستان کو ایک وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آرڈیننس کی کچھ دفعات آئین میں درج شہریوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہیں۔

کل بروز جمعرات کو ابتدائی دلائل سننے اور درخواست گزار کی جانب سماعت کے لیے ایک لارجر بینچ قائم کرنے کی اپیل کے بعد ہائی کورٹ کے جج جسٹس ریاض احمد خان نے اس معاملے کو چیف جسٹس محمد انور خان کاسی کے حوالے کردیا۔

ایڈوکیٹ سلیم اللہ خان جو ایک ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر جنرل بھی ہیں، اپنی درخواست میں عدالت سے اس آرڈیننس کو کالعدم قرار دینے کی اپیل کی۔

آرڈیننس کے سیکشن 3/2 کے حصہ اے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ آرڈیننس قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہلاک کرنے کا لائسنس فراہم کرنے کے مترادف ہے۔

آرڈیننس کے اس سیکشن کے تحت پولیس و فوج کے اہلکاروں کے علاوہ سول مسلح فورسز کو  یہ اختیار ہوگا کہ وہ کسی بھی شخص پر گولی چلا سکیں گے۔

آرڈیننس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو گرفتاری کے وارنٹ کے بغیر کسی بھی جگہ داخل ہو کر سرچ آپریشن کرنے اور کسی بھی شخص کو حراست میں لینے کا اختیار ہوگا، جو جرائم میں ملوث ہوگا۔

آرڈیننس کی دفعہ 5 (5) کے مطابق اگر کوئی بھی شخص اپنی شناخت ثابت کرنے میں ناکام ہوتا ہے اسے پاکستان مخالف جنگجو کے طور پر دشمن قرار دیا جائے گا۔

اسی طرح آرڈیننس کی دفعہ میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی نامعلوم شخص کو بھی حراست میں لیا جاسکتا ہے۔

یہ دفعہ محتاط حراست سے متعلق ہے، جس کے تحت حکومت وزارتِ داخلہ یا کسی ایسے آفیسر  کی طرف سے تحریری حکم نامہ جاری کرسکتی ہے جو بی پی ایس 21  گریڈ سے کم نہ ہو جو خاص طور پر اس مقصد کے لیے نامزد کیا ہو اور اس کو اختیار ہو گا کہ وہ جرائم میں ملوث شخص کو گرفتار کرکے 90 روز تک حراست میں رکھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے قانون کی دفعہ 9 حراست، پوچھ گچھ، تفتیش کی منتقلی اور مقدمات کی سماعت ملک بھر میں کرنے سے متعلق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آرڈیننس کی دفعہ 12 کے تحت حکومت گواہوں، تفتیشی آفیسروں، پراسیکوٹرز، خصوصی عدالتی مجسٹریٹس اور ججوں کے علاوہ ملک پھر عدالتوں کے ساتھ حفاظتی حراستی مراکز کو سخت سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے گی۔

ایڈوکیٹ سلیم اللہ خان کو خدشہ ہے کہ ان محفوظ حراستی مراکز کو جبری طور پر لاپتہ افراد کے لیے غلط استعمال کیا جاسکتا ہے۔

سلیم اللہ خان  نے نشاندہی کی کہ اس آرڈیننس کے ذریعے اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات کو چھیننے کی کوشش کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ نظام کے تحت عدالت ایک خصوصی عدالتی پلیٹ فورم ہے اور خصوصی عدالتوں کے قائم کی تجویز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔

وکیل سلیم اللہ نے کہا کہ یہ آرڈیننس ہائی کورٹ دائرکار میں واضح مداخلت ہے جسے قومی مفاد میں کالعدم کردینا چاہیے۔

انہوں نے عدالت سے اپیل کی کہ یہ ایک عوامی معاملہ ہے جس کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔