تیکھی اور ہلکی دارو
موکھی کی درگاہ -- فوٹو -- گل حسن کلمتی --.
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="https://api.soundcloud.com/tracks/116688028" width="100%" height="166" iframe="true" /]
کراچی کے سب سے قدیم مئے خانے کا سُراغ تقریباََ 300 سال قبل ملتا ہے۔ معروف ادیب اور دانشور آغا سلیم اپنی کتاب 'رسالہ شاہ عبدالّطیف بھٹائی' میں 'سُر کلیان' میں لکھتے ہیں کہ؛"مومل جب رانو کے فراق میں جل کر راکھ ہوئی تو اس کی ایک چالاک اور حسین کنیر ناتہ نے بھی کاک محل چھوڑا اور کراچی کے قریب گڈاپ کے مقام پر رہنے لگی۔ گڈاپ میں اُس نے مئے خانہ کھولا اور انگور کے رس کے مٹکے تیار کرکے بیچنے لگی۔ کچھ عرصے بعد اس کے ہاں ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ جس کا نام اس نے موکھی رکھا۔موکھی کا مئے خانہموکھی ماں کی طرح حسین اور چالاک تھی۔ وہ جوان ہوئی تو اس کا حُسن اور نکھرا۔ دور دور سے لوگ موکھی کو دیکھنے اس کے مئے خانے میں آتے اور موکھی ناز و ادا سے ان کی میزبانی کرتی۔ان دنوں وہاں آٹھ متاروں (سورماؤں) کا شہرہ تھا۔ ایک دن ان متاروں نے بھی موکھی کے حسن کی دھوم سُنی۔ وہ موکھی کو دیکھنے اور اس کی انگوری شراب پینے مئے خانے آئے اور دیکھتے ہی دل و جان سے فریفتہ ہو گئے۔موکھی نے ان کے لیے پرانی شراب کے مٹکے کھولے۔ لیکن شراب نے ان پر کوئی اثر نہ کیا۔ وہ اور شراب مانگنے لگے۔ آخر کچھ شراب نے اور کچھ موکھی کے حُسن نے ان پر اثر دکھایا تو وہ سیراب ہوکر چلے گئے۔کچھ دنوں بعد متارے پھر آئے اور موکھی سے شراب مانگی۔ موکھی کے پاس اتفاق سے پرانے مٹکے ختم ہو چکے تھے۔ اُسے اس بات کا بھی احساس تھا کہ تازہ شراب ان پر اثر نہیں کرے گی۔اچانک اُسے یاد آیا کہ شراب کا ایک مٹکا کئی سالوں سے رکھا ہے۔ موکھی نے مٹکے کا ڈھکن کھولا تو پورا مئے خانہ مہک اٹھا۔ متاروں نے شراب پی۔ ایسی شراب انہوں نے آج تک نہیں پی تھی۔ وہ مستی میں جھومتے ہوئے اپنی گھروں کو چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد موکھی نے خالی مٹکا اٹھایا تو اُسے سانپ کی ہڈیاں نظر آئیں۔ موکھی گھبرا گئی۔ اُسے یقین ہو گیا کہ زہریلی شراب پی کر متارے مر جائیں گے لیکن کچھ ہی دن میں متارے پھر مئے خانے آ پہنچے۔ موکھی انہیں زندہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور جام پہ جام بھر بھر کر انہیں پلاتی رہی لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔آخر انہوں نے پوچھا کہ پچھلی بار تم نے جو شراب پلائی تھی وہ آج کیوں نہیں پلا رہیں؟ موکھی نے انہیں بتایا کہ وہ شراب زہریلی تھی۔ شہہ زوروں نے شراب چکھی تھی زہر پینا نہیں سیکھا تھا۔ یہ سنتے ہی آٹھوں مئے خانے میں ہی مر گئے۔
آٹھ متاروں کی قبریں -- فوٹو -- گل حسن کلمتی --.قصہ اس سے بھی زیادہ طویل ہے۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ مختصراََ اس کا احوال آپ کی نذر کریں۔ اس داستان میں شاہ عبدالّطیف کا مقصد یہ ہے کہ وہی لوگ امر ہوتے ہیں جو زہر کو زم زم سمجھ کر پی جاتے ہیں۔ نہ کہ وہ جو زہر کا سُن کر اُس کی ہیبت سے ہی مر جاتے ہیں۔ شاہ عبدالّطیف فرماتے ہیں؛تیغ تنی ہو گردن پر اور، لب پر جام پہ جامخم کے خم خالی ہوں ہر سو، مئے نوشی ہو عاموہ کب تشنہ کام، جو پالیں حال و مستیبُرا نہ چاہا موکھی نے اور، زہر کا تھا نہ اثربس ایک گھونٹ کی خاطر چوما، مئے خانے کا درجاں سے گئے گذر، بول میں زہر گھُلا تھا
آٹھ متاروں کی قبریں -- فوٹو -- گل حسن کلمتی --.مائی موکھی کی درگاہآپ یقیناً اسے ایک فسانہ سمجھ رہے ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہے۔ معروف مورخ گل حسن کلمتی اپنی کتاب 'کراچی: سندھ کی ماروی' کے صفحہ نمبر 366 پر لکھتے ہیں کہ سہراب گوٹھ سے حیدرآباد جاتے ہوئے نئی سبزی منڈی سے 8 کلومیٹر دور جا کر موکھی کی قبر تک پہنچا جا سکتا ہے۔مزید لکھتے ہیں کہ تیئسر ٹاون اسکیم سے پہلے صرف دیہہ تیسر کے علاقے اسکیم میں شامل تھے۔ لیکن موجودہ حکومت نے دیہہ موکھی کو بھی اس اسکیم میں شامل کر لیا ہے۔بل ڈوزر موکھی کی قبر اور اس کے ساتھ موجود قبرستان کو ختم کرنے وہاں آئے۔ لیکن آس پاس کے دیہاتیوں نے ہمت کرکے انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ لیکن لگتا یہی ہے کہ کسی بھی وقت رات کے اندھیرے میں مورڑو کے بھائیوں کی قبروں کی طرح موکھی کی قبر کو بھی مسمار کر دیا جائے گا۔یہ تو تھی کراچی کے پہلے مئے خانے کی تاریخ جو بہت ہی قدیم ہے۔'شرابی' گوٹھکیا آپ جانتے ہیں کہ کراچی کے علاقے ملیر کی مشہور دیہہ شرافی نہیں بلکہ شرابی ہے؟ سرکاری رکارڈ میں آج تک اس کا نام شرابی ہے۔ مورخ و محقق گُل حسن کلمتی اپنی کتاب "کراچی: سندھ کی ماروی" کے صفحہ نمبر 521 پر لکھتے ہیں کہ؛"خداداد گبول (خداداد کالونی ان ہی کے نام سے منسوب ہے اور اس زمین کے مالک بھی وہی تھے) کے حوالے سے یہ بات عام تھی کہ انگریزوں کے دور میں جب کسی بھی سرکاری زمیں کی نیلامی ہوتی تھی تو وہ ہمیشہ زیادہ سے زیادہ بولی دے کر اُسے خرید لیتے تھے۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ شراب کے نشے میں رہتے تھے۔ اس لیے اُن کی ملکیت کا علاقہ شرابی مشہورہوا۔ دیہہ شرابی لانڈھی تحصیل میں واقع ہے۔دنبے کی شرابقدیم سندھ میں شراب کشید کرنا اور پینا کوئی بُری بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ شراب بنانے کے الگ الگ طریقے تھے۔ لوک رام ڈھوڈھیجا اپنی کتاب "میرا وطن میرے لوگ" کے صفحہ نمبر 326 پر "شراب کی بھٹیاں اور نشہ"‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ؛"سندھ کی شراب اعلیٰ اور معیار میں بہتر ہونے کی وجہ سے دیس پردیس میں مشہور تھی۔ انگریز، یوروپی شراب کے مقابلے میں سندھی شراب پسند کرتے تھے اور سوغات کے طور پر اسے اپنے ملکوں میں بھی لے جاتے تھے۔سندھ کے بڑے شہروں میں بھی شراب کی بھٹیاں ہوتی تھیں۔ جہاں سے شراب خانے شراب تیار کرواتے تھے۔ شوقین سیٹھ اور زمیندار اپنا کچا مال (انگور، کھجور، مُشک، سونف، زعفران، گُلاب، گُڑ اور ببول کی چھال) دے کر اپنی پسند کے مطابق تیکھی یا ہلکی "دارو" تیار کرواتے تھے۔جوان بیویوں کے "ادھیڑ عمر" مرد، دنبے کے گوشت کی شراب تیار کرواتے تھے جو جنسی طاقت کے لیے جوشیلی اور شہہ زور سمجھی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ ایک امیرانہ شہوتی شراب تیار کی جاتی تھی۔دیسی شراب کی 24 بوتلوں میں یونانی حکیم سے حاصل کردہ قوت باہ کا مصالحہ جس میں ستر تیتروں اور دنبے کی چربی بھٹی پر رکھ کر اُسے کاڑھ کر اس سے بوتلیں بنائی جاتی تھیں۔بوتلوں میں کستوری، عنبر، مشک، ثابت دانہ اور مصری ڈال کر اُسے ملتانی مٹی لیپ کر بند کر کے کیکر کے درخت کی جڑ میں ڈال دیا جاتا تھا۔ چھ ماہ بعد جب وہ بوتلیں باہر نکالی جاتی تھیں تو ایسی پُر جوش شراب بن جاتی تھی جس کا خمار عادی شرابی بھی برداشت نہیں کر پاتے تھے۔اس شراب میں کباب ڈبو کر کھائے جاتے تھےاور اس کے با وجود مغز میں تراوٹ اور خمار طاری ہوجاتا تھا۔ لیکن پھر انگریز سرکار نے انگریزی شراب کی فروخت میں اضافے کے لیے یہ بھٹیاں بند کروا دیں گو چوری چھپے اس کی تیاری جاری رہی"۔کراچی کے حوالے سے ماہر شہریات عارف حسن کا مضمون جو نامور ادیب اجمل کمال کی مرتبہ کتاب "کراچی کی کہانی میں" شائع ہوا میں لکھا ہے کہ؛"صدر میں بڑی تعداد میں شراب خانے اور بلیئرڈ روم تھے۔ پیراڈائز سنیما کے باالمقابل "رٹز بار" نفیس شراب خانوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس میں ساگوان کے فریموں والے شیشے کے پارٹیشن اور جستے کا بنا ایک کاؤنٹر تھا۔کبھی کبھی انتظامیہ کی طرف سے ہندوستانی فلموں کے گانے بجائے جاتے، جن سے متاثر ہو کر کئی گاہکوں کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ ایمپریس مارکیٹ میں "اولڈ ٹوڈی شاپ" جہانگیر پارک کے سامنے "یو بار" (U Bar) اور ٹرام پٹے پر "ونرز بار" زیادہ عوامی نوعیت کے شراب خانے تھے۔اسلامائز یشن کے ساتھ ہی شراب خانے معدوم ہو گئے اور صرف ایک بلیئرڈ روم جو لکی اسٹار کے نزدیک ہے باقی رہ سکا۔سینئر فوٹو جرنلسٹ ظفر صاحب جنہوں نے بہ حیثیت فوٹو جرنلسٹ 1972 میں کراچی میں اپنے کام کا آغاز کیا، ہمیں بتایا کہ کراچی کا سب سے منہگا بار روم ہوٹل ایکسلسیئر (Excelsior) میں تھا جس کا ٹکٹ 350 روپے ہوتا تھا. اس میں صرف صاحبِ حیثیت اور انتہائی امیر لوگ جاتے تھے۔ بار روم میں کیبرے ڈانس بھی ہوتا تھا۔اس کے علاوہ سول لائن پولیس اسٹیشن کے ساتھ تاج ہوٹل ہوتا تھا جو بعد میں پیکاک ہوٹل بنا۔ اس میں بھی بار تھا جس میں درمیانے طبقے کے لوگ جاتے تھے۔میٹرو پول ہوٹل میں اویسس بار (Oasis) تھا جو بعد میں چائنیز ریسٹورینٹ بن گیا تھا۔ ائیر پورٹ روڈ پر کبانا بار ہوتا تھا جبکہ صدر میں موجودہ یونائیٹڈ ہوٹل کے پاس بھی ایک بار تھا جو لال پری کے نام سے مشہور تھا۔ اس بار میں غریب طبقے کے لوگ جاتے تھے۔اسی طرح فرئیر مارکیٹ میں رومانہ، شبانہ کلب ہوتا تھا۔ رومانہ، شبانہ دونوں کلب میں ڈانس کرتی تھیں اس لیے یہ کلب ان کے نام سے مشہور تھا اس کلب کا ٹکٹ 30 روپے تھا۔یہ تمام مئے خانے 1977 میں اس وقت بند ہوئے جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے نظام مصطفی کی تحریک چلائی۔ اس تحریک کا اثر کم کرنے کے لیے بھٹو صاحب نے شراب خانوں پر پابندی اور جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا۔لیکن یہ قدم ان کو بچا نہ سکا۔ بالآخر ان کے خلاف تحریک کے نتیجے میں ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا اور کچھ عرصے بعد اسلامی نظام کے نفاذ کا اعلان کیا۔ لیکن ساتھ ساتھ بھٹو صاحب کی جانب سے لگائی گئی شراب کی فروخت پر عائد پابندی ختم کرتے ہوئے غیر مسلموں کے لئے مشروط اجازت دے دی۔آج غیر مسلموں کے لئے کراچی کے مختلف علاقوں میں بہت سے شراب خانے ہیں جہاں ہر قسم کی پاکستانی شراب دستیاب ہے۔ لیکن یہ شراب خانے موکھی کے مئے خانے یا ساٹھ کی دہائی میں کراچی میں موجود مئے خانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کیوں؟ ذرا یہ نوٹس تو پڑھ لیں۔
فوٹو -- اختر بلوچ --.سو مسلمانوں کے لئے بظاہر تو شراب دستیاب نہیں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ پرانے زمانے کے برعکس شراب پر لگنے والا ٹیکس یا جزیہ اب سمگلروں اور پولیس والوں کی جیب میں جاتا ہے، بجاۓ حکومت کے خزانے میں جانے کے.
اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں
اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔