واشنگٹن: امریکا نے 1998 میں خود پر القاعدہ کا حملہ روکنے کے لیے پاکستان سے مدد طلب کی تھی۔
ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف سے کہا تھا کہ وہ طالبان رہنماؤں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس ناگزیر حملے کو رکوائیں۔
ریاست آرکنساس میں کلنٹن کی صدارتی لائبریری میں موجود اس ٹیلی فونک گفتگو کا ریکارڈ منظر عام آیا ہے۔
اس ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے القاعدہ کے اس ناگزیر حملے کی اطلاعات پر کلنٹن نے اپنے اوول آفس سے نواز شریف کو ٹیلی فون کیا تھا۔
اٹھارہ دسمبر، 1998 میں چھ منٹوں پر محیط اس کال میں کلنٹن نے شریف سے کہا تھا: 'مجھے آپ کی ذاتی مدد چاہیے'۔
کلنٹن نے نواز شریف سے کہا تھا کہ وہ افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان رہنماؤں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس حملے کو روکنے میں مدد کریں۔
تین صفحات پر مشتمل اس دستاویز کے مطابق، نواز شریف نے اپنے ردعمل میں کہا: جناب صدر، میں آپ کی پریشانی اور صورتحال کو سمجھ سکتا ہوں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم سے جو بھی ہوسکا ہم کریں گے۔
'میں کل ہی اپنی ٹیم کو افغانستان بھیجوں گا تاکہ وہ اس معاملے پر ان لوگوں سے بات چیت کریں اور انہیں بتائیں کہ اس طرح کے حملے ان کے مفاد میں نہیں اور اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو گا'۔
نواز شریف نے کلنٹن کو مزید کہا: میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ مجھ سے جو ہو سکا میں کروں گا، لیکن آپ کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ تعاون نہ کرنے والے اور ہٹ دھرم ہیں۔
جس پر امریکی صدر نے کہا: میں سمجھ سکتا ہوں، لیکن تعاون نہ کرنے، اسے (اسامہ بن لادن) حوالے نہ کرنے میں اور تعاون نہ کرنے اور اسے حملے کرنے دینے میں بہت فرق ہے۔
'یہ دونوں بنیادی طور پر مختلف چیزیں ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ انہیں یہ سمجھا سکیں گے'۔